میامی، 5 نومبر:ایک آزادانہ مطالعہ سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ امریکہ میں 11 ستمبر کے حملوں کے بعد افغانستان اور عراق سے پکڑے گئے قیدیوں سے پوچھ تاچھ کرنے کیلئے امریکی فوجی ڈاکٹروں نے انہیں ٹارچر کرنے میں تعاون دیکر طبی اخلاقیات کی خلاف ورزی کی۔
اس کے تحت وہ قیدیوں کو ایذائیں دینے اور ان کے ساتھ ظالمانہ اور توہین آمیز سلوک کرنے کیلئے منصوبہ بناتے تھے اور ان پر عمل کرنے میں بھی پورا ساتھ دیتے تھے۔قومی سلامتی حراستی مراکز میں طبی پیشہ کے تحفظ کیلئے بنائی گئی ٹاسک فورس نے یہ نتیجہ اخذ کیا ہے۔
اس پینل میں فوج، صحت ، قانون، انسانی حقوق شعبوں کے 19 ماہرین شامل تھے جنہوں نے شک کی بنیاد پر افغانستان اور عراق سے پکڑے گئے ملزمان کے ساتھ سی آئی اے کے خفیہ قید خانوں اور گوانتانامو میں پچھلے 12 سال کے دوران کئے گئے سلوک میں طبی عملے کے رول کے ریکارڈ کا جائزہ لیا ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ مزید حملوں کو روکنے کی کوشش میں بہت جلد بازی میں اطلاعات حاصل کرنے کیلئے محکمہ دفاع اور سی آئی اے نے ناجائز طریقے سے یہ مطالبہ کیا کہ طبی عملہ اپنی اخلاقی پابندیوں کو بھلاکر ان کا ساتھ دیں اور یہ کہا کہ “اس میں کوئی خرابی نہیں ہے”۔
“ترک اخلاقیات” نامی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ذہنی امراض کے ماہر ڈاکٹر تفتیش کاروں کو یہ مشورہ دیا کرتے تھے کہ قیدیوں کے دل میں کس طرح خوف پیدا کیا جائے اور کیسے انہیں ذہنی پریشانی میں مبتلا کیا جائے کہ وہ سختی برداشت نہ کرسکیں اور تمام معلومات اگل دیں۔
انہوں نے میڈیکل ریکارڈ اور انسانی نفسیات کی معلومات کا استعمال کرکے قیدیوں کے اندر بے چارگی اور دہشت پیدا کی اور نفسیاتی حربوں کے ذریعہ ان کے اندر مزاحمت کا جذبہ بھی ختم کردیا۔
اس میں سی آئی اے کی قید میں رہ چکے لوگوں کے حوالے سے بتایا گیا ہے کہ جب انہیں پوچھ تاچھ کیلئے حد سے زیادہ ایذائیں دی جاتی تھیں اس وقت ڈاکٹروں کی مدد لی جاتی تھی۔جیسے کہ جب کسی قیدی کو پانی میں ڈبو ڈبو کر اس میں مرنے کا خوف پیدا کیا جاتا ہے اس وقت ڈاکٹر ان کی آکسیجن کی سطح جانچتے تھے۔
اسی طرح جب کسی قیدی کو بیڑیاں ڈال کر کئی کئی دن کھڑے ہونے پر مجبور کیا جاتا تھا تب اس وقت ان کی ٹانگوں پر آئے ورم کو ناپا جاتا تھا، کئی بار ڈاکٹر اس میں مداخلت کرتے تھے۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے “سی آئی اے کے قیدخانوں میں ڈاکٹروں کا رول یہ نہیں تھا کہ وہ قیدیوں کا خیال رکھیں اور انہیں درد، تکلیف اور نقصان سے بچائیں ان کا مقصد صرف یہ دیکھنا تھا کہ ایذاؤں کی شدت سے کہیں وہ مرنے کے قریب نہ پہنچ جائیں”۔
ٹاسک فورس نے مکمل تحقیقات کا مطالبہ کیا ہے۔ٹاسک فورس کے ایک رکن ڈاکٹر جیرالڈ تھامسن نے کہا “ہماری یہ ذمہ داری ہے کہ آئندہ ایسے واقعات ہونے کو روکا جائے۔”
پنٹاگن کے ترجمان لیفٹننٹ کرنل ٹاڈ بریسلی نے کہا کہ قیدیوں کو ہم طبی نگہداشت فراہم کراتے تھے اور رپورٹ میں جو الزام لگائے گئے ہیں وہ کوئی نئے نہیں ہیں اور تفتیش کاروں نے جن کی یہ رپورٹ لکھنے والوں سے زیادہ معلوم تک رسائی رہی ہے، ان دعوؤں کو کبھی درست نہیں بتایا۔
جاری۔ رائٹر۔ ش و۔ این یو۔ 1410
امریکہ میں 9 ستمبر کو اغوا کئے ہوئے طیاروں سے حملے کئے گئے تھے جس میں تین ہزار لوگ مارے گئے تھے جس کے بعد افغانستان پر حملہ کیا گیا اور وہاں کے متعدد لوگوں کو شبہ کی بنیاد پر پکڑا گیا۔
ان لوگوں سے معلومات اگلوا نے کے لئے انہیں سالوں تک ٹارچرکیا جاتا رہا ان پر کتے چھوڑیگئے طرح طرح سے ہراساں کیا گیا ان کی توہین کی گئی مگر ان ملزمان پر اتنے سال گذرنے کے بعد بھی اب تک باقاعدہ مقدے نہیں چلائے گئے ہیں یوں ہی قید کرکے رکھا گیا ہے جو قانون سراسر خلاف ورزی ہے۔
رپورٹ کے مطابق اب سی آئی اے کی قید میں تو کوئی نہیں ہے گوانتانامو کے قید خانے میں ا ب بھی قیدی ہیں۔ گوبراک اوبامہ نے ٹارچر اور ظالمانہ سلوک کرنے پر پابندی لگادی ہے۔
تاہم غیر اخلاقی خلاف ورزیاں اب بھی جاری ہیں وہاں قیدیوں نے ناجائز طریقہ سے برسوں تک بند کئے جانے کے خلاف بھوک ہڑتال کررکھی ہے مگر انہیں ناک میں نلی لگاکر زبردستی غذا دی جاتی ہے۔
قیدیوں کا کہنا ہے کہ اس سے انہیں بہت تکلیف ہوتی ہے اور زبردستی غذا دینا ان کے حقوق کی خلاف ورزی ہے۔
مذکورہ رپورٹ لکھنے والوں میں ریٹائرڈ نیوی کیپٹن البرٹ شمکش بھی شامل ہیں جو 2002 اور 2003 میں گوانتانامو میں کمانڈنگ آفیسر اور چیف سرجن تھے وہ اس وقت امریکہ کے بحری جنگ کے کالج میں پڑھاتے ہیں۔