جی ہاں ! یہ منظر آپ کی توجہ اور فکر و تدبر کا طالب ہے۔ امریکی افق پر یہ منظر مسلم اکثریتی آبادی والے ممالک کے عوام ، علماء کرام اور خوف سے سہمے ہوئے اقتدار سے چمٹے مسلم دنیا کے حکمرانوں کی خصوصی توجہ چاہتا ہے۔ منظر یوں ہے کہ ارب پتی امریکی ڈونلڈ ٹرمپ اپنے انتخابی و سیاسی مفاد کیلئے مسلمانوں کی امریکہ آنے پر پابندیاں لگانے کا مطالبہ کر کے تعصب کو ہوا دے رہا ہے۔ اور امریکہ کے مسلمان ایک بار پھر پریشان ہیں۔
سانحہ ورلڈ ٹریڈ سینٹر 2001 کے بعد 14سال تک ہر طرح کی آزمائش، مشکلات،خفیہ نگرانی اور دیگر چیلنجوں کا سامنا کرنے کے بعد امریکہ کے مسلمان اور ان کی نئی نسل خود کو تبدیل شدہ امریکہ میں ’’ایڈجسٹ‘‘ بھی کر نہ پائے تھے کہ سانحہ پیرس کے ساتھ ہی امریکی ریاست کیلفورنیا میں 14 بے گناہ انسانوں کے قتل اور 21 کے زخمی ہونے والا دہشت گردی کا سانحہ ہو گیا۔ اس سانحہ کی ذمہ داری پاکستانی نژاد امریکی نوجوان سید رضوان فاروق اور اس کی پاکستانی اہلیہ تاشفین ملک پر عائد کی گئی ہے۔ اس واقعہ کے بعد امریکہ اور ہمسایہ ملک کینیڈا کے مسلمان اور ان کی نئی نسل شدید دبائو میں آگئے۔ شک و شبے اور تعصب کی نظر سے دیکھنے والوں نے مسلمانوں کے خلاف مختلف آوازیں اٹھانا شروع کر دیں۔ امیگرنٹ آبادی والے بڑے امریکی شہروں نیویارک ، شکاگو اور لاس اینجلس وغیرہ میں بھی صورتحال ٹھیک نہیں۔ ایسی ریاستوں اور علاقوں میں جہاں کم علمی اور جذبات کے باعث 2001ء میں بھی بعض سکھوں کو مسلمان سمجھ کر تشدد بھی کیا گیا اور گور دوارے میں بے گناہ افراد کو قتل کیا گیا۔ وہاں مسلمان ایک بار پھر خوف اور تشویش کا شکار ہیں۔ یہ منظر حقیقی ہے امریکہ کے مسلمان اسی صورتحال کا شکار ہیں لیکن اس کے ساتھ ہی ایک اور حقیقی و عملی منظر بھی جڑا ہوا ہے۔
نیویارک کے ڈاکٹر طارق ابراہیم ، سہیل چیمہ ، اقبال پرویز اور ان کے دیگر ساتھی عالمی شہرت یافتہ ٹائمنر اسکوائر پر جمع ہو کر مسلم ریلی کا پرمٹ حاصل کر کے تحریک چلاتے ہیں تو ریلی میں سب سے آگے امریکہ میں پلنے والی نسل کے وہ نوجوان ہیں جو اردو کو صرف بولنے کی حد تک جزوی طور پر جانتے ہیں ۔ امریکی انگریزی ان کا اوڑھنا بچھونا خود کو قابل فخر امریکن مسلمان کہتے ہیں یہ امریکہ میں پیدا ہونے اور پلنے والی وہ نسل ہے جسے ان کے آبائی وطن کے بعض روایتی حلقے امریکن زدہ آزاد خیال نسل سمجھ کر نظرانداز کر دیتے ہیں۔ یہی نوجوان ڈونلڈ ٹرمپ کو جرات کے ساتھ امریکہ میں ہی کھڑے ہو کر اسی کی زبان ، منطق اور امریکی مزاج کی مناسبت سے موثر جواب دے رہے ہیں کہ ہم کو اپنے دین اسلام پر فخر ہے جو ایک انسان کا قتل بھی پوری انسانیت کا قتل قرار دیتا ، دہشت گردی کو ممنوع اور امن کی تلقین کرتا ہے۔ جب امریکی معاشرے میں قتل ، ڈکیتی اور دیگر جرائم کرنے والوں کو ان کے نام سے شناخت کیا جاتا ہے۔ امریکی قانون اور نظام ملزم اور مجرم کو اس کے عقیدے سے نہیں بلکہ نام سے شناخت کرتا ہے۔ غیر مسلمان شہریوں کی کیتھولک یا پروٹسٹنٹ عیسائی ، ہندو، یہودی بدھسٹ یا دہریت کے حوالے سے شناخت نہیں کی جاتی تو پھر کسی مسلمان نام اور عقیدے والے ملزم یا مجرم کی شناخت امتیازی انداز میں کیوں؟ جس طرح کسی بھی جرم کا تعلق کسی مذہب سے نہیں اس طرح دہشت گردی ، بے گناہ کا قتل اور ایسے جرائم کا اسلام سے قطعاً تعلق نہیں۔
یہ نوجوان امریکہ میں رہ کر امریکی نظام کے تقاضوں اور حدود کو سمجھ کر اپنے غیرمسلم امریکی معاشرے کے سامنے جرات اور فخر کے ساتھ خود کو مسلمان قرار دیتے ہوئے دہشت گردی کی مذمت کرتے اور اسے غیر اسلامی فعل قرار دیتے ہوئے اسلام اور مسلمانوں کے خلاف تعصب اور امتیازی سلوک کی مذمت کرنے کا ایسا جرات مندانہ کام کر رہے ہیں جس کی ہمت مسلم دنیا کے دولت مند اور بااختیار حکمرانوں میں بھی نہیں پائی جاتی۔ نیویارک کے ٹائمنر اسکوائر ، نیوجرسی اور پنسلوانیا کے مسلمانوں کی فلاڈیلفیا ، شکاگو اور دیگر شہروں میں امن کے فروغ ، مسلم فارپیس ، دہشت گردی اور ڈونلڈ ٹرمپ کے مسلم دشمنی کے بیانات کی مذمت کیلئے اجتماعات اور ریلیاں منعقد کرنے والے قابل تحسین ہیں کہ وہ پرامن رہتے ہوئے قانون کے دائرے میں اپنے تشخص کا اظہار اور اسلام کے درست امیج کا بطور امریکی شہری اظہار کر رہے ہیں۔ ایسی پرامن ریلی اور اجتماعات کے منتظمین اور شرکاء قابل مبارکباد ہیں۔
امریکہ کے مسلمان ڈاکٹرز ، پروفیشنلز ، تعلیم یافتہ نوجوان، عام ورکرز، ٹیکسی ڈرائیورز سب یکساں طور پر موجودہ ناخوشگوار صورتحال کا سامنا کررہے ہیں انہیں معلوم ہے کہ اب انہیں اور ان کی اولاد کو اسی امریکی معاشرے میں ایک اقلیت کے طور پر زندگی گزارنا ہے انہیں یہ بھی معلوم ہے کہ ماضی میں امریکہ میں آباد ہونے والی اقلیتوں کو بھی مشکل مراحل سے گزرنا پڑا ہے لیکن وہ امریکی آئین و قوانین کے تحت حاصل شدہ آزادیوں اور حقوق کے استعمال کے ذریعے اپنی شناخت، عقیدہ اور اظہار کی آزادی کا تحفظ چاہتے ہیں۔ مسلم اکثریتی آبادی والے ممالک کی اپنی صورتحال پریشان کن ہے۔ بدامنی ، انتشار ، انتہا پسندی تو موجود ہے مگر شخصی آزادی کا دائرہ محدود ہے۔ شخصی سیکورٹی، حقوق اور اظہار خیال کے بارے میں سوچنے سے قبل انتہا پسند حلقوں کے ردعمل کے بارے میں سوچنا ضروری ہے ۔ میں 40سال سے زیادہ شمالی امریکہ میں قیام ، اپنی کمیونٹی کے شب و روز مسائل و سوچ سے قربت اور خود اپنی اولاد کی اولاد کے تجربات و مشاہدات کی بنیاد پر اپنی اس رائے کا اظہار کر رہا ہوںکہ مسلمانوں کو بطور ایک اقلیت ، تاریخی تناظر اور مستقبل کے تقاضوں کے مطابق غیرمسلم امریکی معاشرے میں پرامن، تعلیم یافتہ اور قانون کی پابند ممتاز کمیونٹی کے طور پر اپنا مقام حاصل کرنا ہے۔ جرات ، شناخت اور علم کے ساتھ دیگر مذاہب کے رہنمائوں سے برداشت اور بقائے باہمی کیلئے انٹرفیتھ (INTER FAITH) ڈائیلاگ کرنے اور انتہا پسندی و تنگ نظری کی مذمت کرنے میں ہی بھلا ہے۔
اس مشکل وقت میں بھی امریکہ میں دیگر مذاہب کے رہنمائوں ، لبرل امریکی اور انسانی حقوق کی تنظیمیں اور باشعور امریکی مسلمانوں کو ٹارگٹ کر نے والے ڈونلڈ ٹرمپ اور اس کے حامیوں کی مذمت بڑی جرات کے ساتھ کر چکے ہیں۔ خود صدر اوباما کے بیانات کو دیکھ لیں۔ کیتھ ایلیسن امریکی تاریخ کے پہلے مسلمان کانگریس مین435 اراکین کے ایوان میں وہ واحد رکن کانگریس ہیں جنہوں نے قرآن پر اپنے عہدے کا حلف اٹھایا۔ اب دوسرے مسلمان رکن کانگریس اندرے کارسن بھی ہیں۔ ان دونوں کانگریس مینوں نے بھی مسلمانوں کے خلاف تعصب کی فضا پیدا کرنے والوں کی کھلی اور مسلسل مذمت کر کے جرات اور آزادی کا مظاہرہ کیا ہے۔ لہٰذا مسلم دنیا امریکہ کے مسلمانوں کی فکر نہ کرے وہ ایک مہذب معاشرے میں اپنے حقوق کی جدوجہد کرنا جانتے ہیں ۔ ڈونلڈ ٹرمپ کی مقبولیت کا گراف 41 فی صد جا پہنچا ہے۔ ہمیں اس کے مقابلے میں اپنے موقف کو پیش کرنے کیلئے دانشوروں اور ورکروں کا گروپ بنا کر امریکہ میں کام کرنے کی ضرورت ہے جرات اور صلاحیت کی کمی نہیں۔ بشکریہ روزنامہ “جنگ“