اس آن لائن پٹیشن کی حمایت برطانیہ ہی سے نہیں بلکہ دیگر ممالک سے بھی کی گئی ہے جن میں آسٹریلیا، ملائیشیا، انڈونیشیا، مراکش، لبنان اور امریکہ شامل ہیں امریکی گلوکارہ کیٹی پیری کے گانے ’ڈارک ہورس‘ کی ویڈیو ریلیز ہونے پر ان پر توہینِ مذہب کا الزام عائد کیا گیا ہے۔
کیٹی پیری کا یہ گانا جنوری کے آخری ہفتے میں ریلیز ہوا تھا جبکہ اس کی ویڈیو 20 فروری کو ریلیز کی گئی ہے۔
ڈارک ہورس گانے کی ویڈیو میں کیٹی پیری مصری ملکہ کے روپ میں ہیں جو اپنا ہاتھ مانگنے والوں کے ٹکڑے ٹکڑے کر دیتی ہے۔
گلوکارہ کیٹی پیری کے خلاف یہ الزام برطانیہ کے شہر بریڈ فورڈ کے رہائشی شہزاد اقبال نے لگایا ہے۔ انہوں نے کیٹی کے خلاف آن لائن پٹیشن کا بھی آغاز کیا ہے۔
شہزاد اقبال کا اس پٹیشن میں کہنا ہے: ’ویڈیو کے سوا ایک منٹ گزرنے کے بعد ایک مرد کو گلے میں ایک ہار پہنا ہوا ہے جس پر اللہ لکھا ہے۔ اس مرد کو وہ ہار پہنے ہوئے جلتے ہوئے دکھایا گیا ہے۔ اس ویڈیو میں صاف توہینِ مذہب ہوئی ہے کیونکہ اس میں کیٹی نے اس شخص کو جلایا ہے جس نے اللہ کے نام کا ہار پہن رکھا ہے۔‘
اس آن لائن پٹیشن کی حمایت برطانیہ ہی سے نہیں بلکہ دیگر ممالک سے بھی کی گئی ہے جن میں آسٹریلیا، ملائیشیا، انڈونیشیا، مراکش، لبنان اور امریکہ شامل ہیں۔
“ویڈیو کے سوا ایک منٹ گزرنے کے بعد ایک مرد کو گلے میں ایک ہار پہنا ہوا ہے جس پر اللہ لکھا ہے۔ اس مرد کو وہ ہار پہنے ہوئے جلتے ہوئے دکھایا گیا ہے۔ اس ویڈیو میں صاف توہینِ مذہب ہوئی ہے کیونکہ اس میں کیٹی نے اس شخص کو جلایا ہے جس نے اللہ کے نام کا ہار پہن رکھا ہے۔”
شہزاد اقبال
تاہم دوسری جانب 60 ہزار افراد نے اس پٹیشن کے خلاف بھی لکھا ہے۔
پٹیشن مخالف پیغامات کے بعد شہزاد اقبال نے لکھا کہ انہوں نے یہ آن لائن پٹیشن تنازع کھڑا کرنے کے لیے شروع نہیں کی بلکہ اس لیے کی کہ اس ویڈیو کو ہٹائے جانے کے حوالے سے حمایت حاصل کر سکیں۔
سوئٹزرلینڈ سے گریکوئر سنگر نے لکھا ہے: ’میں ایک روادار مسلمان ہوں لیکن جہالت کی بھی کوئی حد ہوتی ہے اور اسی باعث اس ویڈیو میں توہینِ مذہب ہوئی ہے۔‘
لندن سے عائشہ اختر نے آن لائن پٹیشن میں لکھا ہے: ’مجھے کیٹی پیری بہت پسند تھی لیکن اب میں نے اپنے ایم پی تھری پلیئر سے اس کے تمام گانے ہٹا دیے ہیں۔‘
ڈارک ہورس ویڈیو 20 فروری کو ریلیز ہوئی اور ابھی تک اس کو ساڑھے تین کروڑ کے قریب افراد دیکھ چکے ہیں۔
اس پٹیشن کے حوالے سے کیٹی پیری کی ریکارڈنگ کمپنی اور یوٹیوب نے ابھی تک بی بی سی کی جانب سے تبصرہ نہیں کیا گیا۔