مغرب نے شکار کے لیے یہ ضابطہ بنایا کہ سوتے پرندوں کو نہ مارا جائے، جگا کے یا اڑا کے مارا جائے، نقل مکانی کرتے پرندوں کو نہ مارا جائے، صرف مقامی پرندوں کو گرایا جائے۔ ہو سکتا ہے کہ اس میں کوئی حکمت پنہاں ہو کہ جگانے سے پرندے کو جان بچانے کا موقع ملتا ہو یا نقل مکانی کرنے والے پرندوں پر سب خطوں یا انسانوں کا حق تسلیم کیا جاتا ہو۔ لیکن ہمارے ہاں یہ کم ازکم ضوابط بھی ناپید ہیں۔سائبیریا میں ٹھنڈ کی شدت زور پکڑتی ہے تو پرندے گرم علاقوں کی طرف کوچ کرتے ہیں۔ روس کے اس یخ بستہ ساحلی خطے سے یہ پرندے پاک آفغان سرحد کے آخری کونے تک سفر کرتے ہیں، لیکن یہاں تک پہنچنے سے پہلے انہیں چترال سے گزرنا پڑتا ہے۔ ستمبر اور اکتوبر وہ خونی مہینے ہیں جب امن کی علامت فاختہ گرم علاقوں کی تلاش میں چترال پہنچتی ہے اور ایک مہلک استقبال وصول کرتی ہے۔
واپسی پر جب بلوچستان میں گرمیاں شروع ہوتی ہیں تو یہ پرندے اسی گزرگاہ سے واپس سائبیریا کا رخ کرتے ہیں اور اپریل اور مئی کے مہینے دوبارہ مہلک ایام بن جاتے ہیں۔ آبی پرندوں کا استقبال اس سے بھی گھناؤنا ہے جن کی آمد دسمبر اور واپسی مارچ میں ہوتی ہے۔ ان کے لیے یہی دورانیہ جان لیوا بن جاتا ہے۔
چترال شاید پاکستان بلکہ دنیا کا واحد خطہ ہے جہاں نقل مکانی کرنے والے پرندوں کے ساتھ ساتھ فاختہ کا بھی شکار کیا جاتا ہے اور بے دردی سے کیا جاتا ہے۔ بظاہر چترال کوئی قبائلی علاقہ نہیں رہا، ملکوں، نوابوں اور خانوں کی حکمرانی کی کوئی روایت چترال میں نہیں رہی ہے۔ چترال صدیوں سے باقاعدہ ریاست کی صورت میں چلا آ رہا ہے جہاں مرکزی حکومتیں ہوا کرتی تھیں۔ انگریزوں نے بھی مقامی حکمرانوں کی حمایت کی اور چترال کو ٹکڑوں میں بانٹ کر سرداروں کے حوالے نہیں کیا۔
پڑھیے: ہوبارا بسٹرڈز: قومی فخر کا غیرمعمولی قتل عام
چترال ضلع خیبر پختونخوا کے زیرِ انتظام ہے۔ یہ صوبہ گذشتہ ایک عشرے سے شدت پسندی کا شکار ہے۔ ہزاروں لوگ متاثر ہوئے مگر کوئی ضلع بحیثیتِ مجموعی اس ناسور سے بچا رہا تو وہ ضلع چترال ہی ہے۔ اس کی مختلف وجوہات ہوسکتی ہیں لیکن ان میں سے ایک بڑی وجہ ضرور یہ ہوگی کہ چترال کے لوگ روایتی طورپر امن پسند ہیں۔ خاندانی اور قبائلی دشمنیاں اس کے سماج کا حصہ نہیں رہے ہیں۔ مجرم کو ریاست نے ہی سزا دی ہے اور بلوائیوں نے کھبی قانون کو ہاتھ میں نہیں لیا۔
سن 82ء میں مذہبی دکانداروں کی کوششوں سے ضرور کچھ واقعات ظہور پذیر ہوئے مگر اس کے بعد ایسی کوئی کاوش کامیاب نہ ہوسکی، اور اس وقت مذہبی طور پر سنی، اسماعیلیہ (جنہیں آغا خان کا پیروکار بھی کہا جاتا ہے) کے علاوہ ایک قلیل تعداد میں کیلاش قبیلے کے لوگ بدھ مذہب کے پیروکار آپس میں نہایت سکون سے رہتے ہیں۔
لیکن پھر بھی جغرافیائی صورتحال نے چترال کے باشندوں کو ہتھیار رکھنے کا عادی بنایا۔ ریاستی حکمرانوں کی آمدنی باقاعدہ فوج رکھنے کی اجازت نہیں دیتی تھی لہٰذا مہتر کی رعایا بوقتِ ضرورت فوج کا کام بھی کرتی تھی۔ لہٰذا ہر گھر میں بندوق رکھنا اور ہتھیار کو غیرت کا نشان سمجھنا ایک رواج ٹھہرا۔ جبکہ شکار اس کلچر کا لازمی حصہ بن گیا۔
60 کی دہائی میں چترال میں سڑکیں بنیں اور چترال بونی روڈ پر پہلی گاڑی سن 1965ء میں چلی جس نے 6 گھنٹے میں 75 کلومیٹر کا سفر طے کیا۔ پھر چترال اور چترالیوں نے پیچھے مڑ کر نہیں دیکھا۔ تعلیم کا رخ کیا گیا، کاروبار شروع کیا گیا، لباس، رہن سہن غرض ہر چیز میں تبدیلی کا عمل ہو گیا۔ لیکن جو چیز نہیں بدلی وہ شکار اور اس کا طریقہ کار ہے۔
مزید پڑھیے: تلور کی دہائی
چترال کی مقیم آبادی تین لاکھ سے زائد ہوگی (اندازے سے کام اس لیے لیا جا رہا ہے کہ عشرے سے مردم شماری کا انعقاد نہیں ہوا ہے)۔ پاکستان کے ہر چھوٹے بڑے شہر میں مقیم چترالیوں کو بھی شامل کیا جائے تو اس تعداد کا ساڑھے چار سے پانچ لاکھ کا تخمینہ ہے۔ ان مقیم چترالیوں میں سے دس فیصد بھی شکار کا عملی شوق رکھتے ہوں (یاد رہے چترال میں شکار کا شوق ہر شخص پالتا ہے) تو شکاریوں کا تخمینہ تیس ہزار اشخاص کے برابر ہے۔ فرض کریں تیس ہزار افراد میں سے بھی آدھے (پندرہ ہزار) شکاری اس موسم میں چترال میں موجود ہوں اور ان میں سے بھی آدھے (ساڑھے سات ہزار) شکاری دو ماہ تک مسلسل شکار کریں تو کتنے پرندوں کے خون سے ہاتھ رنگتے ہوں گے، اس کا خیال ہی لرزہ خیز ہے۔ راقم کو اس صورتحال کا علم ہے کہ ایک شکاری روزانہ کم از کم کتنے پرندوں کا شکار کرتا ہے، زیادہ سے زیادہ کی بحث کو چھوڑ ہی دیں تو بہتر ہے۔
ہر چیز کا محتاط تخمینہ لگاتے ہوئے بھی یہی اندوہناک صورتحال سامنے آتی ہے۔ اگر کوئی ادارہ واقعی کوئی سروے کرے اور حقیقی حالات کا پتہ لگائے تو یقیناً حالات اس سے بھی بدتر ہوں گے۔ اس سلسلے کو ابھی سے روکنے کی اشد ضرورت ہے۔ سرکار کی طرف سے متعین اہلکاروں، جن کا کام شکار کو منضبط کرنا ہے، کو علم ہی نہیں کہ موسمی پرندوں کا شکار بین الاقوامی جرم ہے، جس کی وجہ سے یہ شکار کھلے بندوں کیا جاتا ہے۔ دریا کے کنارے آبی پرندوں کو چکمہ دے کر پھنسانے کے لیے تالاب راتوں رات نہیں بنتے، دنیا میں کوئی معاشرہ ایسا نہیں جو پرندے مارنے کا لائسنس تین سو روپے میں جاری کرے۔ فاختہ مارنے کے لیے لائسنس لینے کی زحمت بھی کوئی کرتا ہے؟
نیٹو افواج کے مطالبے پر یوریا کھاد کی نقل و حرکت پر پابندی لگ سکتی ہے لیکن کیا وجہ ہے کہ قدرت کی ایک خوبصورتی کو بچانے کے لیے بارود پر پابندی لگانا ممکن نہیں؟ چترال میں شکار کے لیے بارود کی کھلی قسم اور چھرے مارکیٹ میں دستیاب ہیں۔ جنہیں دیسی طریقے سے بارہ بور کی بندوق کے استعمال شدہ خول میں دوبارہ بھر کر استعمال کیا جاتا ہے جبکہ بازار میں مقامی اور درآمد شدہ برانڈ کے کارتوس اس کے علاوہ ہیں۔
جانیے: پاکستان کا جی ایس پی پلس اسٹیٹس خطرے میں
حکومت کو ریونیو کا کتنا خسارہ ہوگا کہ اگر اس کارتوس کی فراہمی بند کر دی جائے؟ کیا اقوامِ متحدہ کے چارٹرز پر دستخط کرنے والے ریاست پاکستان کے ماحول کے تحفظ کی اپنی ذمہ داریوں کو نبھاتے ہوئے یہ پابندی نہیں لگا دینی چاہیے؟ کیا تبدیلی کی پیامبر تحریک انصاف کی حکومت کو قدرتی ماحول کے بچاؤ کا یہ معمولی سا کام اپنی جانب نہیں کھینچ سکتا؟
سب سے بڑی ذمہ داری خود چترال کے اپنے باشندوں پر عائد ہوتی ہے۔ چترال میں زمین کی کمیابی ہے جس کا مطلب ہے وہاں انڈسٹری نہیں لگ سکتی۔ واحد انڈسٹری سیاحت ہی ہے جس کے لیے قدرتی ماحول اہمیت کا حامل ہے۔ کیلاش کبھی بھی معدوم ہوسکتے ہیں، ان پر کھڑی سیاحت کی عمارت کسی بھی وقت دھڑام سے گرے گی۔ چترال کی زمینی ساخت سوات اور دیر سے خوبصورت نہیں جس سے لطف اندوز ہونے کے لیے سیاح امڈ آئیں گے۔ لہٰذا واحد دولت ماحول کو بچانا وقت کی ضرورت ہے۔
عوامی سطح پر اس بدنما اور ہلاکت خیز شوق کو خیرباد کہنے کا وقت آگیا ہے۔ جس جس پر اثرانداز ہوسکتے ہیں اپنا اثر و رسوخ استعمال کریں اور انفرادی طورپر کریں، نمائندوں کی طرف مت دیکھیں۔ عوامی دباؤ میں آکر وہ کوئی قانون بنا ڈالیں، یہ بعد کی بات ہے، لیکن ان سے کسی کام میں سبقت کی امید رکھے بغیر اپنے ماحول کی خوبصورتی کے تحفظ کا ذمہ ہمیں خود اٹھانا ہوگا۔