جب بھی الیکشن کا ماحول گرماتا ہے تو اس کی حرارت بالی ووڈ میں بھی محسوس کی جاتی ہے ۔ ویسے بھی ابھی ہو رہے الیکشن بالی ووڈ کی بہت سی ہستیاں اپنی قسمت آزما رہی ہیں لیکن پردے پر بھی الیکشن کے پس منظر پر بنی فلمیں ابھی دیکھنے کو ملیں گی ۔ فلموں سے کافی وقت تک غائب رہنے کے بعد کندن شاہ اپنی نئی فلم ‘ پی سے پی ایم ‘ کے ساتھ حاضر ہیں ۔ اپنی پچھلی فلم ‘ شاہد ‘ بنانے والے ہنسل مہتا اس انتخابی ماحول میں اب راج کمار راؤ کے ساتھ ایک بار پھر ‘ سٹی لائٹس ‘ لے کر آ رہے ہیں ۔ امیتابھ بچن کی فلم بھوت ناتھ کا سیکول ‘ بھوت ناتھ رٹنرس ‘ ناظرین کے سامنے ہے ۔ وہیں سبھاش گھئی کی فلم ‘کانچی ‘ بھی بہت جلد سینما گھروں کی رونق بننے والی ہے ۔ سیاست اور سیاسی اایشوز پر بنی یہ فلمیں کتنا ناظرین کو متاثر کرتی ہیں یہ دیکھنا دلچسپ ہوگا ۔ ویسے اگر دیکھا جائے تو گلابی گینگ ، بھوت ناتھ رٹنرس اور کانچی تینوں ہی فلمیں سیاست کے الگ الگ انداز کو ظاہر کرتی ہیں ۔ گلابی گینگ جہاں سماج میں عورتوں کے مسائل کی نشاندہی کرتی ہیں تو وہیں بھوت ناتھ رٹنرس ایک ہارر فلم ہونے کے ساتھ – ساتھ سیاست کے موجودہ تانے بانے کو پیش کرتی ہے ۔ انتخابی ماحول میں سبھاش گھئی نے اپنی فلم ‘ کانچی ‘ کے ذریعے عورتوں پر ہو رہے ظلم کو ناظرین کے سامنے رکھا ہے ۔ اس فلم کے ذریعے سبھاش گھئی نے ایک نئے چہرے کو بطور ہیروئن بالی ووڈ میں پیش کیا ہے وہ چہرہ ہے کانچی کا رول ادا کرتی اندرانی چکرورتی کا ۔ اس فلم میں رشی کپور اور متھن چکرورتی بھی اہم رول میں ہیں۔ تاہم ابھی تک سبھاش گھئی کی فلمیں لو اسٹوری اور فیملی ڈرامہ کی ہی رہی ہیں اور وہ اس میں کافی حد تک کامیاب بھی رہے ہیں لیکن جب بھی وہ اس لیک سے ہٹے تو اس میں انہیں کوئی فائدہ نہیں ہوا ۔ اٹھارہ سو ستاون کے دور پر انہوں نے وویک اوبرائے کے ساتھ فلم ‘ کسنا ‘ بنائی تھی لیکن ناظرین نے اسے مسترد کردیا ۔ مسلسل ناکامی کا منہ دیکھ رہے سبھاش گھئی اس انتخابی ماحول میں کانچی کو لے کر آئے ہیں ۔ یہ انہیں کہاں تک کامیابی دلا سکتی ہے اس کے لئے تھوڑا انتظار کرنا پڑے گا ۔