٭عباس اختر
” قیامت کی دنیا میں ہے دلفرےبی “
” قیامت میں بھی ےاد آئے گی دنےا “
( بہزاد لکھنوی )
ہندی فلموں نے اپنی صد سالہ تارےخ میں ہندوستانی معاشرے کو بھی اپنے شانہ بشانہ رکھ کر ہی چلاےا ہے اور اس حقیقت سے کوئی بھی سمجھ دار انکار نہیں کر سکتا کہ ہمارہ معاشرہ ہر دور میں فلموں سے متا¿ثر رہا ہے ۔اس سو سال کی تارےخ کا کچھ حصّہ ہمارے ہوشمند ہونے سے پہلے گزر گےا اور کچھ ہماری آنکھوں کے سامنے سے ہو کر گزرا اسلئے ہم کو اس حقیقت کو ماننے میں کوئی عذر نہیں ہے کہ ہند ی فلمیں ہمارے معاشرے کی نس نس میں سما چکی ہیں ۔ ۳۱۹۱ءمیں جب دادا صاحب پھالکے نے پہلی ہندی فلم بنائی تو انکو فلم میں ہیروئن کا کردار نبھانے کیلئے کوئی لڑکی نہیں ملی اسلئے کہ یہ وہ زمانہ تھا جس میں عورتوں کا فلموں میں کام کرنا معےوب سمجھا جاتا تھا ۔مجبور ہو کر دادا صاحب نے ایک خوبرو لڑکے کو فلم کی ہیروئن بناکر پیش کیا ۔جیسے
جیسے فلموں کی مقبولیت بڑھتی گئی وےسے وےسے خواتےن بھی فلموں کی طرف راغب ہوئیں لیکن ان میں بھی زےادہ
تعداد ا طوائفوں کی تھی ۔چونکہ تکنیک اتنی اےڈوانس نہیں تھی اسلئے جو بھی فلم میں آتا تھا اسکو اپنے گانے خود اپنی آواز میں گانا پڑتے تھے ۔اگر آپ بہت پرانے گانے سنےں تو آپکو انکا طرزبھی طوائفوں جےسا ہی لگے گا ۔زمانے کی تبدےلیوں نے آہستہ آہستہ عورتوں پر لگنے والی پابندےوں کو کم کیااسلئے کچھ اچھے گھرانوں کی خواتےن بھی فلموں میں آنے لگےںلیکن انکے ساتھ انکی امائیں بھی پہرے دار کی طرح ساتھ ساتھ رہتی تھےں ۔اسکے باوجود راج کپور کی ابتدائی فلموں تک طوائفوں کا فلموں میں کام کرنے کا سلسلہ جاری رہا ۔
نواب جان نام کی ایک طوائف کو راج کپور آگرے کے کوٹھے سے اٹھا کر لائے اور انکو نمّی کے نام سے فلموں میں کام دےا جو بعد میں ایک بہترےن اداکارہ بن کر ابھرےں ۔
پہلی ہندی فلم ” راجہ ہرےش چندر “ اور پہلی بولتی فلم ” عالم آرا “ کے درمیان اٹھارہ سالوں کا فرق تھا اور ان اٹھارہ سالوں میں صرف خاموش فلمیں ہی بنتی رہیں اےسی فلموں کے ڈائےلاگ کیپشن کے روپ میں نیچے لکھ کر آتے تھے ۔ ۰۴۹۱ءسے ۰۵۹۱ءکے درمیان کے۔اےل۔سہگل کا بول بالا تھا اور اسی عرصے میں اشوک کمار ، دلیپ کمار ،راج کپور اور دیوانند نے فلموں میں اپنی موجودگی کا احساس کراےا ۔ ۰۵۹۱ءسے
۰۸۹۱ء کے بیچ کے دور کو ہندی فلموں کی تاریخ کا سنہری دورمانا جا سکتا ہے ۔یہ وہ ےادگار دور ہے جس نے فلموں کے شائقےن کو اےک سے بڑھ کر ایک فلم کے تحفوں سے نوازا ہے ہماری بہت سی ےادےں فلموں سے وابستہ ہیں اور اوپر والے کی مہربانی سے ےاد داشت ابھی بھی سلامت ہے اسلئے جب تک ہم اپنے قلم سے ہندی کی مشہور فلموں کا تذکرہ نہ کر لیں تب تک ہماری نظر میں ان ہندی فلموں کی سو سالہ تارےخ مکمل نہیں ہو گی ۔
نور جہاں کی فلم ” زےنت “ اپنے زمانے کی بہت کامےاب فلم تھی ۔ ا س فلم سے ہی ہندی فلموں میں قوالیوں کی ابتدا ہوئی ۔اس فلم کی مشہور قوالی ” آ ہیں نہ بھرےں شکوے نہ کےے کچھ بھی نہ زباں سے کام لیا “ کا شمار آج بھی فلموں کی بہترےن قوالیوں میں ہوتا ہے ۔اسکے علاوہ بھی ” بلبلوں مت رو یہاں آنسو بہانا ہے منع“جےسے کتنے ہی گےت لوگوں کے دماغ پر چھائے رہے ۔اس فلم کے ساتھ ایک اےسی حقیقت بھی جڑی ہے جو فلموں کی تارےخ میں کہیں درج نہیں ہے ۔لوگ ےقےن کرےں ےا نہ کرےں لیکن یہ حقےقت ہے کہ اس فلم کی بے مثال کہانی اور لا جواب گےت ہمارے حقےقی ماموں اولاد حسےن صاحب شاعرکے زورِ قلم کا نتےجہ تھے۔ شاعر صاحب کی ہستی دنےائے ادب میں ایک آل راﺅنڈر جےسی تھی ۔انکو نظم اور نثر دونوں پر ےکساں کمال حاصل تھا ۔وہ بہترےن مقرّر، تارےخ داں اور داستان گو بھی تھے ۔شاعری میں زود گوئی کا یہ عالم تھا کہ اےک ہی وقت اور ایک ہی طرح میں سولہ شاگردوں کو الگ الگ غزلیں لکھوا دےا کرتے تھے ۔ جب تقرےر کرنے کھڑے ہوتے تھے تو دو دو گھنٹے تک لوگ محو ہو کر انکو سنتے تھے ۔رات میں سبھی لوگ انکو گھےر کر انکی کبھی نہ تھکنے والی زبان سے الف لیلیٰ جےسی داستانےں سنا کرتے تھے ۔داستان کو چھوڑتے بھی اےسے مقام پر تھے کہ اگلی رات کیلئے کسی پر اسرار فلم کی طرح تجسس بنا رہے ۔جب انہوں نے ”زےنت “ کی اسٹوری لکھ کر لوگوں کو سنائی تو سننے والے حےرت زدہ ہو گئے اور سبھی نے اس کہانی کو بمبئی بھےجنے کا مشورہ دیا لیکن ماموں چونکہ واعظ بھی تھے اسلئے فلموں سے منسلک ہونا انکے لیے مناسب نہیں تھا ۔ جوش ملیح آبادی سے انکے دوستانہ تعلقات تھے اسلئے وہ کہانی انہوں نے جوش صاحب کو دےدی ۔جوش صاحب کے جو رشتے دار ماشاءاللہ حےات ہیں ہو سکتا ہے کہ انکو ہماری یہ بات جھوٹ لگے لیکن یہ اےک اےسی حقیقت ہے جسکو ہم نے اپنے ماموں کی زبان سے بذاتِ خود سنا ہے اسلئے اسکے سچ ہونے میں کسی طرح کے شبہہے کی کوئی گنجائش نہیں ہے ۔ چونکہ یہ کہانی جوش صاحب کو بھی بہت پسند تھی اسلئے انہوں نے اس کہانی کو نور جہاں کے شوہر شوکت حسےن رضوی کو دےدےا اور شوکت صاحب نے اپنے نام سے ہی اس کہانی پر ”زےنت “ نام کی فلم بنا کر خوب نام کماےا ۔فلم نے اس زمانے میں کامےابی کے جھنڈے گاڑ دےے اور ہمارے ماموں مفت میں ہی خوش ہوتے رہے ۔ شوکت حسےن کا نام آنے سے ایک ایسی دلچسپ عشقےہ کہانی بھی ےا د آ گئی جس کا تذکرہ یقینی طور پر قارئےن کیلئے بھی دلچسپی کا باعث ہو گا ۔پاکستانی کریکٹ ٹےم میں نذر محمد کا شمار اچھے اوپننگ بےٹس مینوں میں ہوا کرتا تھا ۔وہ حنیف محمد کے ساتھ ا وپننگ کیا کرتے تھے ۔ ۲۵۹۱ءمیں جب پاکستان کی ٹےم ٹسٹ میچ کھےلنے لکھنو¿ آئی تھی تو یہاں انہیں نذر محمد نے سنچری بنائی تھی ۔انکے بےٹے مدثر نذر بھی بعد میں پاکستان کی ٹےم میں اوپننگ بےٹس مین کی ذمہ داری سنبھال چکے ہیں ۔یہ اسوقت کی بات ہے جب نور جہاں ہندوستان چھوڑ کر پاکستان جا چکی تھےں اور وہاں بھی انکا طوطی بولتا تھا ۔کرےکٹ کے نامور کھلاڑےوں اور فلمی اداکاراﺅں کے درمیان عشق کا ہونا ایک پرانی رواےت ہے ۔نذر محمد کو بھی نور جہاں سے عشق ہو گےا اور عشق کی انتہا یہاں تک پہنچی کہ شوہر کی غےر موجودگی میں نذر محمد نور جہاں کے گھر آنے جانے لگے ۔ایک دن اتفاق سے شوکت حسےن معےنہ وقت سے پہلے گھر پہنچ گئے اور انہوں نے نذر محمد کو نور جہاں کے کمرے میں دےکھ لیا ۔انکو وہاں دےکھ کر وہ آپے سے باہر ہو گئے اور غصّہ اتنا بڑھا کہ انہوں نے نذر محمد کو اٹھا کر کھڑکی سے باہر پھےنک دےا جسکے نتےجے میں نذر محمد کی ٹانگ ٹوٹ گئی ۔نذر محمد کو یہ عشق بہت مہنگا پڑا اسلئے کہ اےک طرف محبوبہ ہاتھ سے گئےں اور دوسری طرف ٹوٹی ہوئی ٹانگ نے انکے کرےکٹ کیرےر کو بھی ہمیشہ کیلئے ختم کر دےا ۔
یہاں پر اپنی ےاد داشت کی بنےاد پر ہم کچھ اےسی ہندی فلموں کا تذکرہ ضرور کرےں گے جو فلمی دنےا میں میل کے پتّھر کی حےثےت رکھتی ہیں ۔۳۴۹۱ءمیں اشوک کمار کی فلم ” قسمت “ نے کامےابی کی بلندےوں کو چھوا ۔ یہ پہلی اےسی فلم تھی جو کلکتے کے اےک ہی تھےٹر میں لگاتار تےن سال تک چلتی رہی ۔ ۹۴۹۱ءمیں کمال امروہی نے
” محل “ نام کی اےک اےسی پر اسرار فلم بنائی جس نے کامےابی کے سارے رےکارڈ تور دےے ۔صرف سولہ سال کی مدھو بالا اس فلم سے ہی سپر اسٹار بن گئےں اور اس فلم کے گانوں نے ہی لتا منگےشکر کو گلو کاری کی بلندےوں تک پہنچا دےا ۔انکا گاےا ہوا گانا ” آئے گا آنے والا “ صرف مشہور ہی نہیں ہوا بلکہ بعد میں روحوں کو بنےاد بنا کر جتنی بھی فلمیں بنیں ان سبھی میں اس طرح کے گےتوں کو شامل کرنے کی اےک رواےت سی بن گئی ۔ ” بیس سال بعد “ ، ”کہرا“ ، ” مدھو متی “ ، ” وہ کون تھی “ ” گمنام “ او ر ” میرا ساےہ “ جےسی فلموں کے اےسے سبھی گےت مشہور ہوئے ۔اسی سال محبوب خان نے ” انداز “ نام کی فلم بنائی جس میں دلیپ کمار ،نرگس اور راج کپور نے پہلی اور آخری بار اےک ساتھ کام کیا ۔ اس فلم کو نوشاد کے خوبصورت گےتوں کیلئے ہمےشہ ےاد کیا جائے گا ۔ بعد میں راج کپور نے اسی کہانی پر ” سنگم “ بنائی اوردلیپ کمار کو اس فلم میں لینے کی کوشش بھی کی لیکن بات نہیں بنی اسلئے کہ دلیپ کمار نے انکار کر دےا۔ بعد میں اس رول کو راجےندر کمار نے ادا کیا جو دلیپ کمار کی نقل کر کے ہی ہیرو بنے تھے ۔ ۱۵۹۱ءمیں راج کپور نے ” آوارہ “ نام کی جو فلم بنائی اس نے انکی شہرت کو دوسرے ممالک تک پہنچا دےا ۔روس میں جو لوگ ہندی نہیں جانتے ہیں وہ بھی انکا مشہور گانا ” آوارہ ہوں “ گاتے پھرتے ہیں ۔ ۲۵۹۱ءمیں وجے بھٹ نے ایک کلاسیکل فلم ” بےجو باورہ “ بنائی جسکے گانے آج بھی کانوں میں رس گھولتے ہیں ۔اسی فلم کے گانے ”تو گنگا کی موج میں جمنا کا دھارا“
کی شوٹنگ کے دوران مینا کماری ناﺅ سے پانی میں گر گئی تھےں اور بڑی مشکل سے انکی جان بچائی گئی تھی۔
اسی سال سے فلم فیئر کے انعامات کی ابتدا ہوئی اور اسی فلم کیلئے مینا کماری کو پہلی بار بےسٹ اداکارہ کے اےوارڈ سے نوازا گےا ۔کے۔آصف اپنی مشہور و معروف فلم ”مغلِ اعظم “ آزادی کے پہلے سے بنا رہے تھے اسی دوران فلمستان والوں نے بہت خاموشی سے ”انار کلی “ نام کی فلم بنا ڈالی ۔ اس فلم میں پردیپ کمار نے سلیم اور بینا رائے نے انار کلی کا کردار نبھاےا تھا ۔ ۳۵۹۱ءمیں جب یہ فلم رےلیز ہوئی تو تہلکہ مچ گےا۔
سی رام چندر نے اس فلم کو اپنی زندگی کی بہترےن موسیقی سے سجاےا تھا ۔ ”انار کلی “کا ہر گانا لوگوں کی زبان پر چڑھ گےا اور آج بھی اس فلم کے گانے کانوں میں رس گھولتے ہیں ۔”یہ زندگی اسی کی ہے “ ، ” جاگ دردِ عشق جاگ “ ،” آ جا اب تو آجا “ اور ” محبت میں اےسے قدم ڈگمگائے “جیسے گےتوں کا شمار ہندوستان کے بہترےن نغموں میں ہوتا ہے ۔اس فلم کی زبردست کامےابی نے کے۔آصف کو ہلا کر رکھ دےا اور مجبور ہو کر انکو اپنے پروجکٹ کو آگے بھی بڑھانا پڑااور فلم کے کلائمکس کو بدلنا بھی پڑا ۔ ۵۵۹۱ءمیں بمل رائے نے دلیپ کمار ،سچترا سین اور وجینتی مالا کو لے کر فلم ” دےو داس “بنائی ۔حالانکہ ” دےو داس “ اس سے پہلے بھی دو بار بن چکی تھی لیکن جب یہ فلم رےلیز ہوئی تو لوگوں کو مانناپڑا کہ ا داکاری کے معاملے میں دلیپ کمار نے پی۔سی۔بروا اورکے۔ایل سہگل کو بہت پیچھے چھوڑ دےا تھا ۔ وجینتی مالا کو اس فلم کیلئے بےسٹ سپورٹنگ ایکٹرس کا فلم فیئر اےوارڈ ملا لیکن انہوں نے یہ اےوارڈ لینے سے انکار کر دےا اسلئے کہ وہ خود کو اس فلم کی ہیروئن سمجھتی تھےں ۔۶۵۹۱ءمیں راج کھوسلہ کی ہداےت میں” سی آئی ڈی “ نام کی جو فلم بنی اسکو اپنے سسپنس اور موسیقی کیلئے ہمیشہ ےاد کیا جائے گا ۔اوپی نےر کے بہترےن گےت ”لے کے پہلا پہلا پیار “ ، ”کہیں پے نگاہیں کہیں پے نشانہ “ ، آج بھی نہ صرف یاد کیے جاتے ہیں بلکہ انکے ری مکس بھی بنائے جاتے ہیں۔
۷۵۹۱ءہندی فلموں کا ایک بہترےن سال تھا اسلئے کہ اسی سال محبوب خان کی ” مدر انڈےا “ ، گرو دت کی ” پیاسا “ اور بی آر چوپڑہ کی ” نیا دور “ رےلیز ہوئی تھےں ۔ان تےنوں فلموں کا شمار ہندوستان کی بہترےن فلموں میں ہوتا ہے اور انکے ساتھ مختلف قسم کی کہانےاں بھی جڑی ہیں ۔محبوب خان ”مدر انڈےا “میں دلیپ کمار کو دو طرح کے وہ رول دےنا چاہتے تھے جو بعد میں راج کمار اور راجیندر کمار نے نبھائے لیکن نرگس نے یہ کہہ کر منع کر دےا کہ شائقین دلیپ کمار کو انکے بےٹے کے رول میں دےکھنا پسند نہیں کرےں گے ۔اسی فلم کے سےٹ پر نرگس بھڑکتی ہوئی آگ کے شعلوں میں گھر گئی تھےں اور سنیل دت نے اپنی جان پر کھےل کر انکی جان بچائی تھی ۔سنیل دت کی اس قربانی نے ہی نرگس کو انکا اتنا گروےدہ بنا دےا کہ ایک سال بعد ہی انہوں نے سنیل دت سے شادی کر لی اور مرتے دم تک اپنے شوہر کی وفادار رہیں ۔گرو دت نے اپنی فلم ” سی آئی ڈی “ میں وحےدہ رحمان کو ایک چھوٹے سے رول سے انٹروڈےوس کیا تھا ۔بعد میں وہ انکے عشق میں گرفتار ہو گئے اور اپنی فلم ”پیاسا “ اور ” کاغذ کے پھول “ میں بھی وحےدہ رحمان کو شامل کیا ۔چونکہ انکا یہ عشق ایک طرفہ عشق تھا اسلئے اسکا انجام بہت برا ہوا اور جب وحےدہ رحمان کی طرف سے کوئی رےسپانس نہیں ملا تو انہوں نے دلبرداشتہ ہو کر خود کشی کر لی ۔” نیا دور “ میں پہلے مد ھو بالا ہیروئن تھےں لیکن انکے والد عطاءاللہ خان نے انکو آﺅ ٹ ڈور شوٹنگ پر جانے کی اجازت نہیں دی اسلئے کہ وہ دلیپ کمار اور مدھو بالا کے عشق سے واقف ہو چکے تھے۔ مجبور ہو کر بی آر چوپڑ ہ نے مدھو بالا کی جگہ پر وجینتی مالا کو لیا اور مدھو بالا پر معاہدے کی خلاف ورزی کرنے کا مقدمہ ٹھونک دےا ۔دلیپ کمار نے اس کیس میں بی آر چوپڑہ کا ساتھ دےا اور بھری عدالت میں مدھو بالا سے اپنے عشق کا اقرار بھی کیا لیکن مدھو بالا کے دل میں چونکہ انکے خلاف کڑواہٹ بھر چکی تھی اسلئے اسی فلم سے انکے عشق کی داستان ہمےشہ کیلئے ختم ہو گئی اور وجینتی مالا دلیپ کمار کی چہیتی بن گئےں۔
۸۵۹۱ءمیں اشوک کمار اور مدھو بالا کی اےک بہترےن فلم ” ہوڑہ برج “ رےلیز ہوئی جس میں ۵۲ سال کی مدھو بالا اور ۷۴ سال کے اشوک کمار میں عمر کا بہت بڑا فرق تھا پھر بھی ان دونوں کے بیچ کی کیمسٹری دیکھنے لائق تھی اور یہ ان دونوں مہان اداکاروں کی اےکٹنگ کا ہی کمال تھا ۔او پی نےر نے اس فلم کو بھی اپنی بے مثال موسےقی سے سنوارا تھا۔ آج کے نئے گلو کار بھی ٹےلنٹ ہنٹ کے پروگراموں میں اس فلم کے کچھ مشہور گےتوں جےسے کہ ” آئےے مہرباں “اور ” چن چن چو بابا چن چن چو “ جےسے گانوں کے ذرےعے اپنے ٹےلنٹ کا مظاہرہ کرنے سے نہیں چوکتے ۔اسی سا ل ”چلتی کا نام گاڑی “ نام کی ایک اےسی کامےڈی فلم رےلیز ہوئی جس نے کامےابی کے سارے رےکارڈ توڑ دےے ۔اس فلم میں پہلی بار تےن بھائی اشوک کمار،
انوپ کمار اور کشور کمار ایک ساتھ نظر آئے اور اپنی بہترےن کامیڈی سے لوگوں کو ہنسا ہنسا کر لوٹ پوٹ کر دےا ۔ اےس ڈ ی برمن کی بہترےن میوزک نے بھی اس فلم میں چار چاند لگا دےے ۔اس فلم کے بہترےن گانوں ”اک لڑکی بھےگی بھاگی سی “، ”بابو سمجھو اشارے “ ، ’ ’ حال کیسا ہے جناب کا “ اور ” پانچ روپیّہ بارہ آنا “ کو آج بھی لوگ ےاد کرتے ہیں ۔
ہندی فلموں کی سو سالہ داستان کوئی چھوٹی موٹی داستان نہیں ہے جسے کوزے میں بند کر دےا جائے اسلئے اس داستان کا سلسلہ اگلے ہفتے بھی جاری رہے گا جس میں ہم کچھ اور بہترےن فلموں اور انکے اندرونی حالات سے آپکو واقف کرائےں گے ۔ بس پڑھتے رہےے ” سنڈے آگ “ اور اپنی معلومات میں اضافہ کرتے رہےے۔
(عباس اختر ایک کہنہ مشق قلمکار ہیں اور انکا میدان طنز و مزاح ہے،انکی ایک کتاب انداز بیاں بازار میں آچکی ہے)(ےو اےن اےن)