گذشتہ دنوں آگرہ میں تقریباً 200 غریب مسلمانوں کو ہندو بنانے کا دعوی کیا گیا ہے
وقت تیزی سے بدل رہا ہے۔ آپ کو شاید ساحر لدھیانوی کا وہ گیت یاد ہوگا کہ ’تو ہندو بنے گا نہ مسلمان بنے گا، انسان کی اولاد ہے انسان بنے گا۔‘
بدلتے وقت کے ساتھ اب سوال یہ پوچھا جارہا ہے کہ تو ہندو بنے گا یا مسلمان رہے گا۔۔۔؟
ملک میں آر ایس ایس سے وابستہ کچھ ہندو تنظیمیں ان مسلمانوں کو’گھر واپس‘ لانے میں لگی ہوئی ہیں جن کے آباؤ اجداد کبھی ہندو ہوا کرتے تھے اور جنھیں کبھی ظالم مسلمان حکمرانوں نےطاقت کے زور پر اسلام قبول کروایا تھا۔ عیسائی برا نہ مان جائیں اس لیے انھیں بھی پروگرام میں شامل کیا گیا ہے۔
الزام یہ ہے کہ عیسائیوں کی گھر واپسی کے لیے دو لاکھ روپے اور مسلمانوں کو دوبارہ ہندو بنانے پر پانچ لاکھ روپے خرچ کیے جارہے ہیں۔
ہندوستان میں عیسائیوں کے مقابلے مسلمانوں کی تعداد کہیں زیادہ ہے
اس لیے ڈیمانڈ اور سپلائی کے اصول کے تحت یہ ریٹ کارڈ کچھ سمجھ میں نہیں آتا۔
وشو ہندو پریشد کا کہنا ہے کہ پوری دنیا کبھی ہندو ہوا کرتی تھی
بہرحال، آگرہ میں تقریباً 200 غریب مسلمانوں کو ہندو بنانے کا دعویٰ کیا گیا ہے۔ اگرچہ ان لوگوں کا الزام ہے کہ انھیں راشن کارڈ بنوانے کا لالچ دیا گیا تھا اور دھوکے سے ہندو بنا دیا گیا۔ لیکن فرض کیجیے کہ انھوں نے اپنی خوشی سے ہندو مت قبول کیا تھا تو پھر ان تنظیموں کا کام کافی آسان ہوجاتا ہے۔ ملک میں مسلمانوں کی آبادی پندرہ کروڑ سے زیادہ مانی جاتی ہے۔ ان میں سے دو سو نکال دیجیے، پھر باقی بچتے ہی کتنے ہیں!
وشو ہندو پریشد کا کہنا ہے کہ پوری دنیا کبھی ہندو ہوا کرتی تھی، اس لیے پروجیکٹ کافی بڑا ہے۔ آپ یہ مان کر چلیے کہ گھر واپسی کے باوجود لوگوں کو اپنے ہی گھروں میں رہنا ہوگا، اور آگرہ کے واقعے سے اگر کوئی سبق ملتا ہے تو بے گھر ہونے کا بھی خطرہ ہے۔ بہر حال، یہاں کام نمٹے تو باقی دنیا پر توجہ دی جاسکتی ہے۔
بھارت میں مسلمان سب سے بڑی اقلیت ہیں اور حکومت انھیں 12 سے 14 فی صد کے درمیان بتاتی ہے
سوشل میڈیا پر بھی بہت سے مشورے دیے جارہے ہیں۔ کچھ غیر سنجیدہ لوگوں کا خیال ہےکہ گھر واپسی کا سلسلہ وزیر اعظم نریندر مودی کی حکومت میں شامل مسلمان وزرا سے شروع کیا جانا چاہیے۔ اس سے یہ پیغام ضرور جائے گا کہ یہ پروگرام صرف غریبوں کے لیے نہیں ہے۔
جو لوگ اس پروگرام کی مخالفت کر رہے ہیں ان کو سمجھنے میں بھول ہوئی ہے۔ سچر کمیٹی کی رپورٹ کے مطابق ملک میں مسلمان ہی سب سے زیادہ پسماندگی کا شکار ہیں۔ اگر ان سب کو پانچ پانچ لاکھ روپے مل جائیں تو کوئی مسلمان غریب نہیں رہے گا۔ اور حکومت پھر دوسرے ضروری کاموں پر توجہ دے سکے گی۔ جیسے گھر گھر گائے کا دودھ تقسیم کروانا۔
آپ کو بتاتے ہیں کہ اس سے کیا فائدہ ہوگا۔ یہ غیر معمولی تجویز اتوار کو بھوپال میں کچھ مذہبی رہماؤں نے پیش کی جو گو کشی کی مخالفت میں یکجا ہوئے تھے۔
کہا جاتا ہے کہ عیسائیوں کی گھر واپسی کے لیے دو لاکھ روپے اور مسلمانوں کو دوبارہ ہندو بنانے پر پانچ لاکھ روپے خرچ کیے جارہے ہیں
اس میں تین چار اہم باتیں کہیں گئیں۔ بعض کا تعلق مذہبی عقائد سے ہے اور بعضے کا سماجی برائیوں سے۔ مثال کے طور پر جو لوگ گائے کا دودھ پیتے ہیں وہ کوئی غلط کام نہیں کر سکتے اور بدعنوانی کا واحد حل گائے کا دودھ ہے۔ تقریب میں مطالبہ کیا گیا ہے کہ حکومت 10 سال کی عمر کے ہر بچے کو گائے کا دودھ مفت فراہم کرائے کیونکہ بچوں کی شخصیت اس عمر تک ڈھل جاتی ہے۔
یہ اچھی تجویز ہے۔ گائے کا دودھ سب سے پہلے ان لوگوں کو پلایا جانا چاہیے جو معاشرے میں منافرت پیدا کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔
اور ہاں، ہمارے گھر میں بھی چار لوگ ہیں۔ چیک کا انتظار رہے گا!