امریکا کے صدر باراک اوباما نے ایک بار پھر واضح کیا ہے کہ شدت پسند تنظیم ‘داعش’ کی پیش قدمی کو روکنے کے لیے امریکا اپنے فوجی دستے عراق نہیں بھیجے گا لیکن اگر ضرورت پڑی تو شدت پسندوں کی ٹھکانوں پر فضائی حملے کیے جا سکتے ہیں اور اس کی اجازت وہ دے چکے ہیں۔
امریکی ‘وائٹ ہاؤس’ میں ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے صدر اوباما نے کہا کہ وہ امریکی فوج کو عراق میں ایک اور جنگ میں جھونکنے کی اجازت نہیں دیں گے۔ لیکن انہوں نے واضح کیا کہ اگر امریکیوں کی زندگیوں کو خطرہ لاحق ہوا، یا ہزاروں عام شہریوں کی جانیں خطرے میں پڑیں تو ایسی صورتِ حال میں امریکا ضرور قدم اٹھائے گا۔
صدر اوباما نے کہا کہ فوجی قوت کے استعمال کا فیصلہ انتہائی احتیاط اور دانش مندی کا متقاضی ہے اور اسی لیے وہ عراق میں امریکی فوج کے استعمال کے مطالبات پر محتاط ردِ عمل کا مظاہرہ کرتے رہے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ امریکا شدت پسندوں سے نمٹنے کے لیے عراقی فوج کو تربیت اور معاونت فراہم کرتا رہے گا اور شدت پسندوں کی پیش قدمی کے باعث بے گھر ہونے والے افراد کی امداد میں مزید اضافہ کیا جائے گا۔
صدر اوباما نے عراقی سیاست دانوں پر زور دیا کہ وہ اپنے اختلافات بھلا کر فوری طور پر نئی حکومت تشکیل دیں۔ انہوں نے کہا کہ عراق میں نئی حکومت کے برسرِ اقتدار آنے پر امریکا اس کے ساتھ اپنے تعاون میں اضافہ کرے گا۔ ان کا کہنا تھا کہ امریکا کو عراق میں ایسی معتدل قوتوں کی حمایت کرنی چاہیے جو ملک میں استحکام لانے کی صلاحیت رکھتی ہوں۔
اوباما انتظامیہ کے مطابق شمالی عراق میں شدت پسندوں کی تازہ پیش قدمی کے باعث بے گھر ہونے والے خاندانوں کے لیے ایک امریکی فوجی طیارے نے جمعرات کی شام امدادی سامان گرایا ہے۔
امریکی محکمہ دفاع کے ایک اہلکار نے ذرائع ابلاغ کو بتایا ہے کہ امریکی فوجی طیارے نے کھانے اور صاف پانی کے پیکٹ عراق کے انتہائی شمال مغربی علاقے سِنجار میں گرائے ہیں جہاں عراق کے ان عیسائی قصبوں سے ہجرت کرنے والے ہزاروں افراد پناہ لیے ہوئے ہیں جن پر ‘داعش’ کے جنگجووں نے بدھ کو قبضہ کر لیا تھا۔
عراق کے نیم خودمختار علاقے کردستان کے نزدیک واقع علاقوں میں جنگجووں کی اس اچانک پیش قدمی کے باعث علاقے کے ہزاروں افراد بے سرو سامانی کے عالم میں پہاڑیوں پر پناہ لیے ہوئے ہیں۔
اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل نے بھی بدھ کی شام اپنے ایک ہنگامی اجلاس میں عالمی برادری سے ان افراد تک فوری مدد پہنچانے کی اپیل کی تھی۔