وائیٹ ہاؤس‘ 10 ستمبر 2014
صدر: میرے امریکی ہموطنو – آج میں آپ سے اِس بارے میں بات کرنا چاہتا ہوں کہ آئی ایس آئی ایل کے نام سے پہچانے جانے والے دہشت گرد گروہ کو کمزور کرنے اور بالآخر تباہ کرنے کے لئے امریکہ اپنے دوستوں
اور اتحادیوں کے ساتھ مل کر کیا کرے گا۔
بحیثیت کمانڈر انچیف میری سب سے بڑی ترجیح امریکی عوام کی سلامتی ہے۔ گزشتہ کئی سالوں سے ہم نے مسلسل اُن دہشت گردوں سے جنگ کی ہے جن سے ہمارے ملک کو خطرہ درپیش ہے۔ ہم نے اسامہ بن لادن اور افغانستان اور پاکستان میں القاعدہ کی قیادت کے بڑے حصے کو تباہ کیا۔ ہم نے یمن میں القاعدہ کے الحاق کو نشانہ بنایا اور حال ہی میں صومالیہ میں اس کے الحاق کے ایک اعلٰی کمانڈر کو ہلاک کیا ہے۔ ہم نے ایسا عراق سے 140,000 سے زیادہ امریکی فوجیوں کو واپس لاتے ہوئے اور افغانستان میں اپنی افواج میں کمی کرتے ہوئے کیا ہے۔ افغانستان میں ہمارا جنگی مشن اس سال کے آخر تک اختتام کو پہنچ جائے گا۔ ہمارے فوجی اور انسداد دہشت گردی کے ماہرین کی وجہ سے امریکہ مزید محفوظ ہوگیا ہے۔
تاحال، ہمیں ایک دہشت گرد خطرے کا سامنا ہے۔ ہم دنیا سے برائی کا ہر ایک نشان نہیں مٹا سکتے اور قاتلوں کا ایک چھوٹا سا گروہ، عظیم نقصان پہنچانے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ 9/11 سے پہلے یہ صورت حال تھی اور یہ بات آج بھی اسی طرح درست ہے۔ اسی لئے جیسے خطرات نمودار ہوتے ہیں ہمیں چوکس رہنا چاہیے۔ اس وقت ہمیں سب سے بڑے خطرات مشرق وسطٰی اور شمالی افریقہ سے ہیں جہاں بنیاد پرست گروہ اپنے مفادات کے لئے شکایات کا استحصال کرتے ہیں۔ ان گروہوں میں سے ایک آئی ایس آئی ایل ہے جو اپنے آپ کو “اسلامی ریاست” کہتا ہے۔
اب، آئیے دو چیزوں کی وضاحت کریں: آئی ایس آئی ایل “اسلامی” نہیں ہے۔ کوئی مذہب بھی معصوموں کے قتل سے درگزر نہیں کرتا اور آئی ایس آئی ایل کے متاثرین کی اکثریت مسلمان ہے۔ آئی ایس آئی ایل یقیناً کوئی ریاست نہیں ہے۔ یہ پہلےعراق میں القاعدہ کی الحاقی تھی۔ اس نےعراقی اور شامی سرحد کے دونوں اطراف علاقے پر قبضہ کرنے کے لئے، فرقہ وارانہ کشیدگی اور شام کی خانہ جنگی سے فائدہ اٹھایا ہے۔ اسے نہ تو کوئی حکومت تسلیم کرتی ہے اور نہ ہی وہ لوگ جو اس کے محکوم ہیں۔ سچی اور سادہ سی بات یہ ہے کہ آئی ایس آئی ایل ایک دہشت گرد تنظیم ہے۔ اِس کے علاوہ اس کا کوئی تصور نہیں ہے کہ اُن سب کو قتل کردیا جائے جو اِس کی راہ میں رکاوٹ بنتے ہیں۔
ایک ایسا خطہ جو خون خرابے کے حوالے سے جانا جاتا ہے، وہاں پر یہ دہشت گرد اپنی بربریت کی وجہ سے یکتا ہیں۔ وہ گرفتار کیے گئے قیدیوں کو پھانسی دیتے ہیں۔ وہ بچوں کو ہلاک کرتے ہیں۔ وہ عورتوں کو غلام بناتے ہیں، اُن کی آبروریزی کرتے ہیں اور اُنہیں زبردستی کی شادیوں پر مجبور کرتے ہیں۔ انہوں نے ایک مذہبی اقلیت کو نَسل کشی کی دھمکی دی۔ اور بربریت کی کاروائیوں میں انہوں نے دو امریکی صحافیوں – جم فولی اور سٹیون سوٹلوف کی جانیں لے لیں۔
لہذا آئی ایس آئی ایل سے، عراق اور شام کے عوام اور امریکی شہریوں، اہل کاروں اور سہولیات سمیت وسیع تر مشرق وسطٰی کو خطرہ درپیش ہے۔ اگر اِنہیں کھلا چھوڑ دیا گیا تو یہ دہشت گرد، اس خطے سے باہر ان علاقوں تک ایک بڑھتا ہُوا خطرہ بن سکتے ہیں جن میں امریکہ بھی شامل ہے۔ گو کہ ہمیں اپنے وطن کے خلاف کسی مخصوص سازش کا پتہ نہیں چلا لیکن آئی ایس آئی ایل کے قائدین، امریکہ اور اس کے اتحادیوں کو دھمکیاں دے چکے ہیں۔ ہماری انٹیلی جنس برادری کو یقین ہے کہ یورپیوں اور کچھ امریکیوں سمیت ہزاروں غیر ملکی، شام اور عراق میں ان کے ساتھ شامل ہوگئے ہیں۔ تربیت یافتہ اور جنگی آزمودہ کار یہ جنگجو اپنے آبائی ممالک میں واپس آنے اور مہلک حملے کرنے کی کوشش کرسکتے ہیں۔
مجھے علم ہے کہ بہت سے امریکی اِن خطرات کے بارے میں فکر مند ہیں۔ آج رات، میں چاہتا ہوں کہ آپ کو علم ہو کہ ریاستہائے متحدہ امریکہ اِن کا مقابلہ، قوت اور عزم کے ساتھ کررہا ہے۔ گزشتہ ماہ، میں نے آئی ایس آئی ایل کی پیشقدمیوں کو روکنے کے لئے، اپنی فوج کو اس کے خلاف ہدفی کاروائی کرنے کاحکم دیا تھا۔ تب سے، ہم نے عراق میں150 سے زائد کامیاب فضائی حملے کیے ہیں۔ ان حملوں کی وجہ سے امریکی اہلکار اور سہولیات محفوظ رہے، آئی ایس آئی ایل کے جنگجو ہلاک ہوئے، ہتھیار تباہ ہ ہوئے، اور عراقی اور کُرد افواج کو اپنا کلیدی علاقہ واپس لینے کا موقع میسر آیا۔ ان حملوں سے ہزاروں معصوم مردوں، عورتوں، اور بچوں کی جانیں بچانے میں بھی مدد ملی۔
لیکن یہ صرف اکیلی ہماری جنگ ہی نہیں ہے۔ امریکی طاقت ایک فیصلہ کُن فرق تو ڈال سکتی ہے لیکن ہم عراقیوں کے لئے وہ کچھ نہیں کر سکتے جو اُنہیں اپنے لئے کرنا ضروری ہے اور نہ ہی ہم، اپنےخطے کو محفوظ بنانے کی عربوں کی جگہ لے سکتے ہیں۔ اسی لئے میں نے یہ اصرار کیا ہے کہ امریکہ کی اضافی کاروائی کا انحصار عراقیوں کی ایک جامع حکومت کی تشکیل پر ہے جو کام انہوں نے حالیہ دنوں میں کر لیا ہے۔ لہذا آج رات، نئی عراقی حکومت کے قیام کے ساتھ اور بیرونِ ملک اپنے اتحادیوں سے اور ملک میں کانگرس کے ساتھ صلاح مشورے کے بعد، میں یہ اعلان کرسکتا ہوں کہ امریکہ اس دہشت گرد خطرے کی پسپائی کے لئے ایک وسیع اتحاد کی قیادت کرے گا۔
ہمارا مقصد واضح ہے: ہم ایک جامع اور پائیدار انسداد دہشت گردی کی حکمت عملی کے ذریعے، آئی ایس آئی ایل کو کمزور کریں گے اور بالآخر تباہ کردیں گے۔
پہلے، ہم ان دہشت گردوں کے خلاف، فضائی حملوں کی ایک منظم مہم چلائیں گے۔ عراقی حکومت کے ساتھ کام کرتے ہوئے، ہم اپنے لوگوں کے تحفظ اور انسانی بنیادوں پر کیے جانے والے مشنوں سے بڑھکر، اپنی کاروائیوں کو وسعت دیں گے تا کہ جب عراقی افواج حملہ آور ہوں تو ہم آئی ایس آئی ایل کے ٹھکانوں پر ضرب لگا سکیں۔ مزید براں، میں نے یہ واضح کردیا ہے کہ جو دہشت گرد ہمارے ملک کے لئے خطرہ ہیں، وہ جہاں کہیں بھی ہوں ہم اُن کا پیچھا کریں گے۔ اِس کا یہ مطلب ہے کہ میں آئی ایس آئی ایل کے خلاف شام اور عراق میں کاروائی کرنے سے نہیں ہچکچاؤں گا۔ یہ میری صدارت کا ایک بنیادی اصول ہے: یعنی اگر آپ امریکہ کو دھمکی دیں گے تو آپ کو کوئی محفوظ پناہ گاہ نہیں ملے گی۔
دوسرے، اِن دہشت گردوں سے موقع پر لڑنے والی قوتوں کے لیے ہم اپنی امداد میں اضافہ کریں گے۔ یہ جائزہ لینے کے لئے کہ کس طرح ہم بہترین طریقے سے عراقی افواج کی مدد کرسکتے ہیں، میں نے جون میں کئی سو امریکی فوجیوں کو عراق میں تعینات کیا۔ اب جبکہ اِن ٹیموں نے اپنا کام مکمل کرلیا ہے اور عراق نے ایک حکومت بنا لی ہے، ہم مزید 475 فوجی عراق بھیجیں گے۔ جیسا کہ میں پہلے کہہ چکا ہوں کہ اِن امریکی فوجیوں کا کوئی جنگی مشن نہیں ہوگا — ہم عراق میں ایک اور زمینی جنگ میں نہیں گھسیٹے جائیں گے۔ لیکن ان کی عراقی اور کُرد افواج کو تربیت، انٹیلی جنس اور آلات کے شعبوں میں مدد کے لئے ضرورت ہے۔ آئی ایس آئی ایل کے قبضے کے خلاف سنی برادریوں کی آُن کی آزادی کے تحفظ میں مدد کرنے کے لئے، ہم عراق کی نیشنل گارڈ یونٹ کھڑا کرنے کی کوششوں کی بھی حمایت کریں گے۔
سرحد کے اُس پار، شام میں، ہم نے شامی حزب مخالف کے لئے اپنی فوجی امداد بڑھادی ہے۔ آج رات، میرا کانگرس سے دوبارہ کہنا ہے کہ وہ ہمیں اِن جنگجوؤں کی تربیت اور آلات سے لیس کرنے کے لئے اضافی اِختیارات اور وسائل دے۔ آئی ایس آئی ایل کے خلاف جنگ میں، ہم اسد کی ایک ایسی حکومت پرانحصار نہیں کرسکتے جو اپنے لوگوں کو دہشت زدہ کرتی ہے؛ ایک ایسی حکومت جو وہ قانونی حیثیت دوبارہ نہیں پا سکتی جسے وہ کھو چکی ہے۔ اس کی بجائے ہمیں آئی ایس آئی ایل جیسے انتہا پسندوں کا بہترین توڑکرنے کی خاطر حزب مخالف کو مضبوط کرنا چاہیے اور اِس کے ساتھ ساتھ شام کے بحران کو ہمیشہ کےلئے حل کرنے کے لئے ضروری، سیاسی حل نکالنا چاہیے۔
تیسرے، ہم آئی ایس آئی ایل کے حملوں کو روکنے کے لئے اپنی انسداد دہشت گردی کی مضبوط صلاحیتوں سے استفادہ کرنا جاری رکھیں گے۔ اپنے شراکت داروں کے ساتھ کام کرتے ہوئے، ہم اِس کی مالی امداد کو منقطع کرنے؛ اپنی انٹیلی جنس کو بہتر بنانے؛ اپنے دفاعوں کو مضبوط کرنے؛ اِس کے گمراہ کُن نظریے کا خاتمہ کرنے؛ اور مشرق وسطٰی کی جانب اور اِس سے باہر غیر ملکی جنگجوؤں کے بہاؤ کو روکنے کے لئے، اپنی کوششوں کو دگنا چوگنا کردیں گے۔ دو ہفتوں میں، اِس کوشش کے بارے میں عالمی برادری کو مزید متحرک کرنے کے لئے، میں اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے اجلاس کی صدارت کروں گا۔
چوتھے، ہم اُن معصوم شہریوں کو انسانی بنیادوں پر امداد فراہم کرنا جاری رکھیں گے جنہیں اِس دہشت گرد تنظیم نے بے گھر کردیا ہے۔ اِن میں شدید خطرے کے شکار سُنی اور شیعہ مسلمانوں کے ساتھ ساتھ دسیوں ہزار عیسائی اور دیگرمذہبی اقلیتیں بھی شامل ہیں۔ ہم اِن برادریوں کو اُن کی قدیم سرزمینوں سے نکالے جانے کی اجازت نہیں دے سکتے۔
تو، یہ ہماری حکمت عملی ہے۔ ہماری حکمت عملی کے اِن چار حصوں میں، ہر ایک میں امریکہ کے ساتھ ایک وسیع اتحاد کے شراکت دار شامل ہوں گے۔ پہلے ہی ہمارے اتحادی ہمارے ہمراہ عراق میں طیارے اڑا رہے ہیں؛ عراقی سکیورٹی دستوں اور شامی حزب مخالف کو ہتھیار اور امداد بھیج رہے ہیں؛ انٹیلی جنس کا تبادلہ کررہے ہیں؛ اور انسانی امداد کی شکل میں کئی بلین ڈالر فراہم کررہے ہیں۔ وزیر خارجہ کیری نے آج عراق میں نئے حکومتی (ارکان) سے ملاقات کی اور اُن کے اتحاد کی کوششوں کے فروغ کی حمایت کی۔ آنے والے دنوں میں وہ مشرق وسطٰی اور یورپ بھر کا سفر کریں گے تا کہ جنگ میں مزید شراکت داروں بالخصوص عرب اقوام کو جو عراق اور شام میں سُنی برادریوں کو ان دہشت گردوں کو اپنے علاقوں سے نکالنے کے لئے متحرک کرنے میں مدد کرسکتی ہیں، شامل کیا جاسکے۔ یہاں امریکی قیادت اپنی بہترین شکل میں ہے: یعنی ہم اُن لوگوں کے ساتھ کھڑے ہوتے ہیں جو اپنی آزادی کے لئے خود لڑتے ہیں۔ اور ہم اپنی مشترکہ سلامتی اور مشترکہ انسانیت کی خاطر دیگر قوموں کو اکٹھا کرتے ہیں۔
میری انتظامیہ نے یہاں ملک کے اندر اِس نقطہ نظر پر دونوں جماعتوں کی حمایت بھی حاصل کر لی ہے۔ میرے پاس آئی ایس آئی ایل کے خطرے سے نمٹنے کا اختیار ہے لیکن میرا یقین ہے کہ ہم بحیثیت ایک قوم اس وقت مضبوط ترین ہوتے ہیں جب صدر اور کانگرس اکٹھے مل کر کام کررہے ہوتے ہیں۔ لہذا دنیا کو یہ دکھانے کی خاطر کہ اِس خطرے کا سامنا کرنے کے لئے امریکی متحد ہیں، میں اس کوشش میں کانگرس کی حمایت کا خیرمقدم کرتا ہوں۔
اب، آئی ایس آئی ایل جیسےکسی سرطان کے خاتمے میں وقت لگے گا۔ جب بھی ہم فوجی کاروائی کرتے ہیں تو اس میں خطرات ہوتے ہیں۔ خاص طور پر اُن فوجی مَردوں اور عورتوں کو خطرہ ہوتا ہے جو یہ کاروائیاں سر انجام دیتے ہیں۔ لیکن میں چاہتا ہوں کہ امریکی عوام یہ سمجھیں کہ یہ کوشش عراق اور افغانستان کی جنگوں سے کس طرح مختلف ہوگی۔ اِس میں امریکی جنگی دستے غیر ملکی سرزمین پر لڑائی میں ملوث نہیں ہوں گے۔ انسداد دہشت گردی کی اس مہم کا مقصد آئی ایس آئی ایل کو جہاں کہیں بھی وہ موجود ہے، وہاں سے اُسے نکالنا ہے۔ یہ مہم ایک ایسی مستحکم، مسلسل کوشش سے چلائی جائے گی جس میں ہم اپنی فضائی طاقت اور زمین پر موجود اپنی شراکت دار افواج کی مدد کواستعمال کریں گے۔ اگلی صفوں میں اپنے شراکت داروں کی مدد کرتے ہوئے، اُن دہشت گردوں کو باہر نکالنے کی یہ حکمت عملی جن سے ہمیں خطرہ ہے وہ حکمت عملی ہے جس پر کئی سالوں سے ہم نے کامیابی سے یمن اور صومالیہ میں عمل کیا ہے۔ اور یہ اُس نقطہ نظر سے موافقت رکھتی ہے جس کا خاکہ میں نے اس سال کے اوائل میں پیش کیا تھا: یعنی جو کوئی بھی امریکہ کے بنیادی مفادات کے لئے خطرہ ہے اُس کے خلاف طاقت کا استعمال کرنا، اوربین الاقوامی نظام کو درپیش وسیع مشکلات سے نمٹنے کی خاطر جہاں پر ممکن ہو شراکت داروں کو متحرک کرنا۔
میرے امریکی ہموطنو، ہم ایک عظیم تبدیلی کے دور میں رہ رہے ہیں۔ جب ہمارے ملک پر حملہ کیا گیا تھا، کل اُسے 13 سال ہوجائیں گے۔ عظیم کساد بازاری کے بعد جب ہماری معیشت کو بد ترین جھٹکا لگا، اگلے ہفتے اُسے چھ سال ہوجائیں گے۔ اِن جھٹکوں کے باوجود، ہم نے جو درد محسوس کیا اور ہم نے دوبارہ اُٹھنے کی خاطر درکار جو مشکل کام کیا، اِن کی بدولت امریکہ اپنا مسقبل پانے کے لئے کرہ ارض پر کسی دوسری قوم کی نسبت، آج بہتر حا لت میں ہے۔
ہماری ٹیکنالوجی کمپنیوں اور یونیورسٹیوں کا کوئی ثانی نہیں ہے۔ ہماری مصنوعاتی اور موٹرسازی کی صنعتیں ترقی پذیر ہیں۔ توانائی میں خودانحصاری کئی دہائیوں کی نسبت قریب تر ہے۔ اُس تمام کام کے باوجود جو باقی ہے، ہمارے کاروباروں میں بلا تعطل روزگار پیدا کرنے کا ہماری تاریخ کا یہ ایک طویل ترین سلسلہ ہے۔ ہماری جمہوریت میں ساری تقسیموں اور اختلاف کے باوجود، میں ہر روز امریکی عوام کے تحمل، عزم مصمم اور عام بھلائی کا مشاہدہ کرتا ہوں اور یہ امر اپنے ملک کے مستقبل کے بارے میں مجھے پہلے سے کہیں زیادہ پُراعتماد بنا دیتا ہے۔
بیرون ملک، ایک غیر یقینی دنیا میں امریکی قیادت ایک مستقل چیز ہے۔ یہ امریکہ ہے جو دہشت گردوں کے خلاف دنیا کو متحرک کرنے کی صلاحیت اور عزم رکھتا ہے۔ یہ امریکہ ہے جس نے روسی جارحیت کے خلاف اور یوکرینی عوام کے اپنی قسمت کے تعین کے حق کی حمایت میں دنیا کو اکٹھا کیا ہے۔ یہ امریکہ ہے — ہمارے سائنسدان، ہمارے ڈاکٹر، ہمارا علم وہنر — جو ایبولا کی وباء پر قابو پانے اور اِس کا علاج کرنے میں مدد کرسکتا ہے۔ یہ امریکہ ہے جس نے شام کے ظاہر کردہ کیمیائی ہتھیاروں کو منتقل کرنے اور تباہ کرنے میں مدد کی تا کہ وہ دوبارہ شامی عوام یا دنیا کے لئے خطرہ نہ بن سکیں۔ اور یہ امریکہ ہے جو دنیا بھر میں مسلمان کمیونٹیوں کی نہ صرف دہشت گردی کے خلاف جنگ لڑنے میں بلکہ مواقعوں کے لئے جدوجہد، اور رواداری، اور ایک زیادہ پُرامید مستقبل کے لئے مدد کررہا ہے۔
امریکہ، ہماری لاامتناعی نعمتیں ہمیں ایک پائیدار بوجھ عطا کرتی ہیں۔ اور بحیثیت امریکی، ہم قیادت کرنے کی ذمہ داری کا خیر مقدم کرتے ہیں۔ یورپ سے ایشیا تک، افریقہ کے دوردراز علاقوں سے مشرق وسطٰی کے جنگ زدہ دارالحکومتوں تک، ہم آزادی کے لئے، انصاف کے لئے، اور وقار کی حمایت کے لئے کھڑے ہیں۔ یہ وہ اقدار ہیں جنہوں نے ہماری قوم کی اس کے قیام کے وقت سے، رہنمائی کی ہے۔
اِس قیادت کو لے کر آگے بڑھنے میں، آج رات میں آپ کی حمایت کا طلب گار ہوں۔ میں یہ ایک ایسے کمانڈر انچیف کی حیثیت سے کررہا ہوں جو اس سے زیادہ اپنے اُن فوجی مردوں اور عورتوں پر فخر نہیں کرسکتا — جووہ دلیر ہوابازہیں جو مشرق وسطٰی میں خطرے کے پیش نظر جہاز اڑاتے ہیں، اور وہ فوجی ہیں جو زمین پر ہمارے شراکت داروں کی مدد کرتے ہیں۔
جب ہم نے ایک دور دراز پہاڑ پر پھنسے ہوئے شہریوں کے قتل عام کو روکنے میں مدد کی تو اُن میں سے ایک نے یہ کہا: “ہم اپنی زندگیوں کے لئے اپنے امریکی دوستوں کے مرہون منت ہیں۔ ہمارے بچے یہ ہمیشہ یاد رکھیں گے کہ کوئی ایسا تھا جس نے ہماری جدوجہد کو محسوس کیا اور معصوم لوگوں کو بچانے کے لئے ایک لمبا سفر طے کیا۔”
یہی وہ فرق ہے جو ہم دنیا میں پیدا کرتے ہیں۔ اور ہماری اپنی سلامتی، ہمارے اپنے تحفظ کا انحصار ہمارا وہ کچھ کرنے کی آمادگی پر ہے جو اِس قوم کا دفاع کرنے اور اُن روایات کی بالادستی کو برقرار رکھنے کے لئے ضروری ہے جن کے ہم امین ہیں۔ وقت سے ماوراء، یہ وہ نظریات ہیں جو صرف نفرت اور تباہی پیش کرنے والے اُن لوگوں کے بعد طویل عرصے تک زندہ رہیں گے جنہیں کرہ ارض پر مکمل طور پر شکست دی جا چکی ہوگی۔
خدا ہمارے فوجیوں پر رحم فرمائے، اور خدا ریاستہائے متحدہ امریکہ پر رحم فرمائے۔