دبئی ۔؛ایران کےاصلاح پسند صدر حسن روحانی کی نیویارک میں اپنے امریکی ہم منصب براک اوباما سے ٹیلیفونک گفتگو کو ایک ہفتہ گذرچکا ہے مگر ایران میں شدت پسند حلقوں کی جانب سے اس پر احتجاج ٹھنڈا نہیں ہو سکا۔ قدامت پسندوں کی جانب سے جاری احتجاج کی لہر تہران سے نکل کر ملک کے قدیم مذہبی مرکز”قم” تک پہنچ گئی ہے جہاں قدامت پسندوں نے “مشرکین سے اعلان برات” کے نام سے نہ صرف ایک گروپ تشکیل دیا ہے بلکہ امریکی پرچم بھی نذرآتش کیا گیا ہے۔
خیال رہے کہ ایران کے مذہبی مرکز “قم” سمیت کئی شہروں میں حکومت کی پیشگی اجازت کے بغیر کسی قسم کی احتجاجی سرگرمی کی اجازت نہیں ہوتی، لیکن جمعرات کے روز قدامت پسندوں نے اس پابندی کی خلاف ورزی کرتے ہوئے سڑکوں پرنکل کر صدر روحانی کی امریکا کے ساتھ مصالحت کے لیے سفارتی مساعی کے خلاف احتجاج کیا ہے۔
ایران کے متشدد خیالات کے حامل قدامت پسند مذہبی رہ نما آیت اللہ مصباح یزدی کے مقرب سمجھی جانے والی فارسی ویب سائٹ “598” نے رپورٹ دی ہے کہ حجۃ الاسلام حسن روحانی کی نیویارک میں امریکی ہم منصب کے ساتھ ہونے والی ٹیلیفونک بات چیت، امریکی دورے کے دوران دو طرفہ سفارت کاری بڑھانے کے لیے لچک کا مظاہرہ اورامریکی انتظامیہ کے ساتھ قربتیں بڑھانے کی کوششوں پر قدامت پسندوں میں سخت اشتعال پایا جا رہا ہے۔ عوام میں پائے جانے والے اسی اشتعال کے ردعمل میں مذہبی حلقوں نے “مشرکین سے اعلان برات” کے نام سے ایک کمیٹی تشکیل دی ہے جو آئندہ تہران سرکار کی جانب سے امریکی دشمنوں کے ساتھ راہ و رسم بڑھانے پر اپنا رد عمل ظاہرکرے گی۔
“مشرکین سے اعلان برات” کمیٹی کا پہلااجلاس بدھ کی شام کو قم میں ہوا جس کے بعد کل جمعرات کے روز کمیٹی کے زیراہتمام ایک احتجاجی مظاہرہ کیا گیا۔ مظاہرے میں سیکڑوں افراد نے شرکت کی۔ احتجاجی مظاہرے میں امریکی پرچم نذرآتش کرنے کے ساتھ ساتھ امریکا مردہ باد کے نعرے بھی لگائے گئے۔
رپورٹ کے مطابق “مشرکین سے اعلان برات” کمیٹی کا اعلان مدرسہ “معصومیہ” منعقدہ اجلاس میں کیا گیا، جس میں اہل تشیع کے کئی ممتاز علماء اور فقہاء نے شرکت کی۔ انہوں نے امریکا کو “شیطان اکبر” قرار دیا اوراس کے ساتھ دوستی کا ہاتھ بڑھانے کو شیطان سے دوستی قرار دیا گیا۔
خیال رہے کہ ایران میں امریکا مخالف جذبات رکھنے والے قدامت پسندوں کا ایک ہفتے میں تشکیل کردہ یہ دوسرا گروپ ہے۔ قبل ازیں تہران میں قدامت پسندوں نے “تحفظ مفادات ایران کمیٹی” کےنام سے ایک گروپ قائم کیا تھا جس نے صدر حسن روحانی کو امریکا سے واپسی پر تہران کے بین الاقوامی ہوائی اڈے پر روک لیا تھا۔ صدر پر جوتے اچھالے گئے اور ان کے خلاف سخت نعرے بازی کی۔ بالآخر صدر روحانی کوایئر پورٹ سے نکالنے کے لیے پولیس کو مداخلت کرنا پڑی تھی۔