واشنگٹن؛امريکی وزير خارجہ جان کيری آج [بروز بدھ] کانگريس کو اس بات پر قائل کرنے کی کوشش کريں گے کہ ايران کے متنازعہ جوہری پروگرام کے حل کے ليے اس مخصوص وقت پر تہران کے خلاف اضافی پابندياں عائد کرنا درست حکمت عملی نہيں ہوگی۔
امريکی محکمہ خارجہ کی ترجمان جينيفر ساکی نے رپورٹروں سے بات چيت کرتے ہوئے کہا کہ وزير خارجہ کيری ايران کے خلاف نئی مجوزہ پابنديوں ميں ’عارضی تعطل‘ چاہتے ہيں تاکہ چھ عالمی طاقتوں کو اس دس سالہ پرانے تنازعے کے سفارتی حل کے ليے وقت مل سکے۔ اپنی يوميہ بريفنگ کے دوران ساکی نے کہا، ’’کيری واضح طور پر يہ بات کہيں گے کہ اس وقت جب ہم اس بات کا تعين کر رہے ہيں کہ آيا اس تنازعے کا سفارتکاری کے ذریعے حل نکالا جا سکتا ہے، نئی پابنديوں کا اطلاق ايک غلطی ہوگا۔‘‘
امريکی وزير خارجہ جان کيری آج بدھ کے روز واشنگٹن ميں ’سينيٹ بينکنگ کميٹی‘ کو بريفنگ دينے والے ہيں۔ کانگريس کے ماتحت کام کرنے والی يہ کميٹی ايران کے خلاف پابنديوں کا مسودہ تيار کرتی ہے۔
درايں اثناء جان کیری کا یہ موقف وائٹ ہاؤس کی جانب سے بھی دہرايا گيا ہے اور متنبہ کيا گيا ہے کہ اس مخصوص وقت پر تہران انتظاميہ کے خلاف مزيد پابندياں عائد کرنا جنگ کی جانب پيش قدمی کے مساوی ہوگا۔ وائٹ ہاؤس کے مطابق نئی پابنديوں سے مکالمت کا عمل متاثر ہوگا اور پھر ايران کو ايٹمی ہتھياروں کے ممکنہ حصول سے روکنے کے ليے واحد راستہ عسکری کارروائی ہی رہ جائے گا۔ وائٹ ہاؤس کے ترجمان جے کارنی نے منگل کو رپورٹرز سے بات چيت کرتے ہوئے کہا، ’’امريکی عوام جنگ کی طرف پيش قدمی کرنا نہيں چاہتے۔‘‘
واضح رہے کہ امريکی ايوان نمائندگان نے ايران کے خلاف نئی پابندياں عائد کرنے کے سلسلے ميں ايک بل کی منظوری دے رکھی ہے تاہم سفارتکاری کی کوششوں کو موقع دينے کے ليے سينيٹ نے اس ميں تاخير کا فيصلہ کيا ہے۔ ری پبلکن اور ڈيموکريٹ دونوں ہی جماعتوں کے چند اہم سينيٹرز ايران کے خلاف نئی پابنديوں کے حق ميں ہيں۔ اس بارے ميں بات کرتے ہوئے سينيٹ کے خارجہ امور کی کميٹی کے چيئرمين رابرٹ مينن ڈيز نے کہا ہے کہ پابندياں اس بات کو يقينی بنانے کے ليے لازمی ہيں کہ تہران ان مذاکرات ميں نيک نيتی کے ساتھ حصہ لے۔
اس بارے ميں بات کرتے ہوئے ’نيشنل ايرينين امريکن کونسل‘ کی صدر ٹريٹا پارسی نے کہا کہ نئی پابندياں ايرانی صدر حسن روحانی کی ’نرم پوزيشن‘ يا ان کے رويے کو بری طرح متاثر کريں گی کيونکہ تہران انتظاميہ ميں سخت گير نظريات کے حامل سياست دان تاک لگائے بيٹھے ہيں۔ پارسی کے بقول اس سے قبل کہ امريکی کانگريس سفارتکاری کا راستہ بند کر دے، مذاکرات کاروں کو جلد ہی کسی سمجھوتے تک پہنچنا پڑے گا۔
واضح رہے کہ گزشتہ ہفتے سوئٹزر لينڈ کے شہر جنيوا ميں ايران اور چھ عالمی طاقتوں کے درميان ہونے والے مذاکرات بغير کسی نتيجے کے ختم ہو گئے تھے۔ مذاکرات کا اگلا دور بيس نومبر کو جنيوا ہی ميں طے ہے اور کئی حلقوں کا ماننا ہے کہ اس دور ميں کسی سمجھوتے تک پہنچ جانے کا امکان ہے۔
امريکا اور ديگر مغربی ممالک کو شبہ ہے کہ ايران اپنے جوہری پروگرام کی آڑ ميں جوہری ہتھيار تيار کر رہا ہے جبکہ تہران انتظاميہ اس الزام کو رد کرتی ہے اور اس کا کہنا ہے کہ اس کا ايٹمی پروگرام پر امن مقاصد کے ليے ہے۔