دن میں کسی بھی وقت شیشہ دیکھنا، اپنی شخصیت کا جائزہ لینا قطعی معمول کی بات ہے۔ لیکن اگر آپ شیشے کے سامنے خود کو اکثر برا اور بدصورت محسوس کریں، اپنی شخصیت سے غیر مطمئن ہوں تو یہ ایک نفسیاتی بیماری بھی ہو سکتی ہے۔اکثر ایسا بھی ہوتا ہے کہ بہت سے لوگ خود کو شیشے میں دیکھ کر پریشان ہو جاتے ہیں، وہ پوری طرح اس تصور کے قائل ہو جاتے ہیں کہ وہ بہت برے دکھائی دے رہے ہیں۔ ایسی صورت میں خرابی آپ کی شخصیت یا چہرے کی جاذبیت میں نہیں ہوتی بلکہ یہ ایک ایسی نفسیاتی بیماری یا سنڈروم کا نتیجہ ہوتا ہے، جو آپ کو یہ یقین دلا دیتا ہے کہ آپ بدصورت نظر آ رہے ہیں اور اس کے خلاف آپ کو کچھ نہ کچھ کرنا ہی چاہیے۔ نفسیاتی ماہرین اس بیماری کو باڈی ڈِسمورفِک ڈِس آرڈر یا اپنے جسم کے بے ڈھنگا ہونے سے متعلق نفسیاتی خلل کا نام دیتے ہیں جو کسی بھی انسان کے ذہن میں اپنی ذات میں نقص یا عدم تحفظ کے بہت چھوٹے سے احساس کو بھی غیر معمولی حد تک شدید بنا سکتا ہے۔ اس سنڈروم کے شکار افراد میں اپنے ظاہر کو بدلنے کی ایک ایسی قابو میں نہ آنے والی خواہش پیدا ہو جاتی ہے، جس کا نتیجہ بہت سے ذہنی اور جسمانی نقصانات حتیٰ کہ موت کی صورت میں بھی نکل سکتا ہے۔جرمن شہر فرینکفرٹ کی یونیورسٹی کی معروف ماہر نفسیات وکٹوریہ رِٹّر کہتی ہیں کہ اسی احساس کے نتیجے میں بہت سے لوگ مسلسل تشویش کا شکار ہو جاتے ہیں، جس کے بعد وہ نہ صرف خود سے ہمیشہ ناخوش رہتے ہیں بلکہ ایسے مرد اور خواتین ہر دم یہی سوچنے میں لگے رہتے ہیں کہ وہ اپنی شخصیت کو ظاہری طور پر زیادہ جاذبِ نظر اور پرکشش کیسے بنا سکتے ہیں۔ماہر نفسیات وکٹوریہ رِٹّر کے مطابق ایسے اکثر متاثرہ افراد اس سے کہیں زیادہ پرکشش شخصیات کے مالک ہوتے ہیں، جتنا کہ وہ خود کو سمجھتے ہیں۔ وہ کہتی ہیں، ’’ایسے افراد شیشے میں اپنا جو عکس دیکھتے ہیں، اس کا اس شخصیت سے حقیقی تعلق نہ ہونے کے برابر ہوتا ہے، جس کے وہ دراصل مالک ہوتے ہیں۔‘‘ فرینکفرٹ یونیورسٹی کی یہ معروف سائیکالوجسٹ نہ صرف Body Dysmorphic Disorder کے مریضوں کا مطالعہ کرتی ہیں بلکہ ان کا ممکنہ تھیراپی کے ذریعے علاج بھی کرتی ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ اس سنڈروم کے شکار افراد تقریباً ہمیشہ ہی اپنی شخصیت کے جمالیاتی پہلوؤں اور اعضاء کے متناسب ہونے کے حوالے سے بہت گہرے لیکن تنقیدی رویوں کے مالک ہوتے ہیں اور اسی لیے انہیں انتہائی معمولی سا فرق بھی بہت بڑا اور بدنما بنا دینے والا نظر آتا ہے۔فرینکفرٹ ہی کے ایک سائیکو تھیراپسٹ شٹیفان برْن ہوئبر کے مطابق اس بیماری کے مریض جب کسی ماہر معالج سے مدد لینے کا فیصلہ کرتے ہیں تو تب تک وہ اپنی شخصیت کے نقص کا شکار ہونے سے متعلق انتہائی منفی سوچ کے راستے پر بہت آگے تک جا چکے ہوتے ہیں۔شٹیفان برْن ہوئبر کہتے ہیں کہ Body Dysmorphic Disorder ایک ایسا سنڈروم ہے جو اکثر انسانوں کو ان کے بچپن اور جوانی کے درمیانی سالوں میں متاثر کرتا ہے، جب وہ جسمانی طور پر بلوغت کے مرحلے سے گزر رہے ہوتے ہیں۔ ایسے مریض اپنی بدصورتی کے احساس پر قابو پانے کے لیے بیوٹی کلینکس، فٹنس سینٹرز یا پھر پلاسٹک سرجری کرنے والے ڈاکٹروں تک کا رخ کرتے ہیں، حالانکہ انہیں ضرورت صرف نفسیاتی رہنمائی اور سوچ کی اصلاح کی ہوتی ہے۔ڈاکٹر وکٹوریہ رِٹّر کا کہنا ہے، ’’اگر کوئی محض اپنے آپ کو زیادہ خوبصورت بنانے کے لیے روزانہ ایک گھنٹے سے بھی زائد کا وقت صرف کرے، بار بار اپنے آپ کو شیشے میں، کسی شیشے کی کھڑکی میں یا اپنے موبائل کی اسکرین پر دیکھے، یا دوسروں سے اکثر یہ پوچھتا پھرے کہ وہ کیسا نظر آ رہا ہے تو یہ رویہ خطرے کی گھنٹی ہو سکتا ہے۔‘‘ ڈاکٹر رِٹّر کے بقول ایسے افراد کو یا ان کے اہل خانہ کو فوری طور پر کسی نفسیاتی معالج سے رابطہ کرنا چاہیے۔سائیکو تھیراپسٹ برْن ہوئبر کا کہنا ہے کہ اس مرض کی پہلی مرتبہ تشخیص سو سال پہلے ہو گئی تھی۔ تبھی اسے اس کا موجودہ نام دیا گیا تھا۔ اصل بات کسی بھی متاثرہ لڑکے، لڑکی، مرد یا عورت کو اس کے جسمانی ظاہر کے حوالے سے سچ تک لے کر جانا ہوتی ہے۔ اسی لیے ایسے کسی ذہنی رویے کا علم ہو جانے کے بعد نفسیاتی ماہرین سے مشاورت میں تاخیر نہیں کی جانی چاہیے۔
موٹاپا کم کرنا ہے تو دھوپ سینکیں
واشنگٹن: طبی ماہرین نے اپنی تحقیق کے دوران سورج کی افادیت کو ثابت کرتے ہوئے کہا کہ اگر ہمیں موٹاپے کو کم کرنا ہے تو اس کے لئے قدرت نے ہمین دھوپ کا انمول تحفہ دیا ہے۔امریکا اور آسٹریلیا سے تعلق رکھنے والیسائنس دانوں کے ایک مشترکہ تحقیقی مطالعے میں کہا گیا ہے کہ سورج کی روشنی میں مناسب وقت گزارنے، پابندی سے ورزش اور صحت مند خوراک کے استعمال کے ذریعے موٹاپے میں اضافے کی رفتار کو کم کیا جاسکتا ہے۔محققین کا کہنا ہے کہ اس تحقیق سے ہمیں یہ سمجھنے میں مدد ملتی ہے کہ سورج ہمارے لیے کس قدر فائدہ مند ہے تاہم اس کے ساتھ ہی دھوپ سینکنے میں توازن بھی انتہائی ضروری ہے ۔
کیونکہ زیادہ دیر تک دھوپ میں بیٹھنے سے جلد کا کینسر ہونے کا خدشہ بھی ہے۔