ممبئی۔ پیسہ اور گلیمر سے چکاچوندھ فلمی دنیا میں اگرچہ اب پہلے سے پیر جما چکی ہستیوں کے لڑکے لڑکیوں یا دیگر رشتہ داروں کا بول بالا ہے۔ پھر بھی ملک کے کونے کونے سے اسٹار بننے کی تمنا اپنے دل میں لئے نوجوان لڑکے لڑکیوں کو ممبئی کا رخ کرنے کا سلسلہ تھمتا نظر نہیں آتا۔ ان میں سے کتنے کے خواب پورے ہو پاتے ہیں یہ الگ بات ہے۔ لیکن ہیروئن بننے کی خواہش رکھنے والی نوجوان لڑکیوں کو کن کن حالات سے گزرنا پڑتا ہے ۔فلم، ٹی وی اور ماڈلنگ کی چکاچوندھ میں کاسٹنگ کاوچ کا اندھیرا بھی ہے۔ لیکن اس پر کوئی بات نہیں ہوتی۔ لگتا ہے کہ جیسے گلیمر ورلڈ کے اندر اسے لے کر ایک اندرونی طور پر رضامندی بنی ہوئی ہے۔ جو بھی اس کے خلاف آواز اٹھاتا ہے خود ہی الگ تھلگ پڑ جاتا ہے۔ اس لئے اس سے نجات نہیں مل رہی اور استحصال کا سلسلہ جاری ہے۔حال میں کامیاب فلم ’تارے زمین پر‘کی ہیروئن ٹسکا چوپڑا نے ایک کتاب لکھی ہے- ’ایکٹنگ اسمارٹ ‘اس میں انہوں نے بتایا ہے کہ کاسٹنگ کاوچ آج بھی فلمی دنیا کا ایک کڑوا سچ ہے۔ کام دلانے کے بدلے لڑکیوں کا جنسی استحصال کیا جاتا ہے۔ چونکہ ان دنوں کئی ’گے ‘ڈائریکٹر پروڈیوسر بھی ہیں اس لئے مرد فنکاروں کو بھی اس سے گزرنا پڑتا ہے۔ لیکن سیکسوئل فیور دینے سے ہی کام مل جائے گا اس کی کوئی ضمانت نہیں ہے۔حال میں ایک ایونٹ مینجمنٹ کمپنی کا ڈائریکٹر جس نے ایک فلم میں کام دینے کے بدلے لڑکی کا جسمانی استحصال کیا تھا، پکڑا گیا۔
اسی طرح ایک دیگر معاملے میں سرخیوں میں رہی ماریا سوسے راج کا کہنا تھا کہ سیریلوں میں کام کے بدلے ایک لڑکے نے اس کا استحصال کیا تھا، جس کا اس نے اپنے بوائے فرینڈکے ساتھ مل کر قتل کر دیا۔ مدھر بھنڈارکر اور پریٹی جین کا قصہ تو سب کو معلوم ہے۔ پریٹی جین کا الزام تھا کہ مدھر نے فلم میں کام دینے کے بدلے سترہ بار اس سے جسمانی رشتے قائم کئے۔ اگرچہ مدھر بھنڈارکر کو بعد میں عدالت نے بری کر دیا تھا۔ رینا نام کی ایک غیر ملکی لڑکی نے سبھاش گھئی اور انوپ جلوٹا پر ایسے ہی الزام لگائے تھے۔برسوں پہلے مشہور فلم ڈائریکٹر راج کنور نے کہا تھا کہ پہلے لڑکیوں کو آڈیشن اور اسکرین ٹیسٹ وغیرہ سے گزرنا پڑتا ہے۔ اس کے بعد ان سے ’کمپرومائز‘ کرنے کو کہا جاتا ہے۔
ٹسکا نے لکھا ہے کہ اس طرح کے آفر پر ’ہاں‘ یا ’نہ‘ کہنا آپ پر ہے۔ اس دنیا میں ایسی باتیں بہت ہیں مگر کوئی کسی پر ریپ کا الزام نہیں لگاتا۔ ٹسکا نے بھلے ہی یہ نہیں بتایا مگر سچ یہ ہے کہ جس دن کوئی کسی پر الزام لگائے گا یا شکایت کرے گا، پوری انڈسٹری اس کے خلاف کھڑی ہو جائے گی اور اسے کام ملنا بند ہو جائے گا۔ ویمن امپائورمنٹ کے نعروں کے مقابلے یہ ایک تلخ حقیقت ہے۔ویسے، بالی ووڈ بھی ان چیزوں سے خالی نہیں ہے۔ مارلن منرو نے کہا تھا کہ جب بھی اس کے ساتھ ایسا ہوتا ہے وہ دیر تک نہاتی ہیں۔ ان مردوں کے ہر ٹچ کو مٹانے کی کوشش کرتی ہیں۔ انوپم کھیر نے بھی ایک بار مارلن کا ذکر کرتے ہوئے کہا تھا کہ اسے کامیابی حاصل کرنے کے لئے تین سو سے زیادہ مردوں کے ساتھ ہم بستر ہونا پڑا تھا۔مراٹھی فلموں کی مشہور ہیروئن ہنسا واڈیکر نے اپنی سوانح عمری میں اپنے اسی طرح کے تجربے کا ذکر کیا تھا۔ ساتھ میں یہ بھی کہا تھا کہ اگر کوئی ہیروئن ستی ساویتری ہونے کی قسمیں کھائے یا کہے کہ اس کے ساتھ ایسا کبھی نہیں ہوا تو میں کبھی اس پر یقین نہیں کروں گی۔ ’
بھومیکا‘کے نام سے فلم ان کی اسی کتاب پر بنی تھی۔ انگریزی کی ایک مشہور فلمی میگزین نے ایک بار ایک ہیروئن کا نام لئے بغیر لکھا تھا کہ اسے ایک فلم میں کام کرنے کے لئے بتیس افراد کو ’خوش‘ کرنا پڑا تھا۔ ساؤتھ کی مشہور ہیروئین بھارتی کا ماننا تھا کہ ’کبھی اپنے ساتھ کام کرنے والے ہیرو کو ناراض نہیں کرنا چاہئے۔ مجھ سے جب بھی کسی ہیرو نے کچھ چاہا، میں نے کبھی اسے مایوس نہیں کیا‘۔ پروین بابی جب اچانک ملک چھوڑ کر چلی گئی تھی تو ہیما مالنی نے بہت دکھی ہوتے ہوئے کہا تھا مجھے یہاں سب کچھ چاندی کی پلیٹ میں سجا ہوا ملا، مگر سب کے ساتھ ایسا نہیں ہے پروین بابی کو یہاں زبردست استحصال سے گزرنا پڑا۔ پروین بابی کے پاگل ہونے کا ایک بڑا سبب ان کا انتہائی حساس ہونا سمجھا جاتا ہے۔ ان کی موت بھی بے حد المناک تھی۔ گزرے زمانے کی ہیروئین رینا رائے کا کہنا تھا کہ ایسا نہیں ہے کہ میں نے کوئی سمجھوتہ نہیں کئے، لیکن آج کل کی لڑکیوں کو دیکھتی ہوں تو الٹی آتی ہے۔ مشہور رائٹر شوبھا ڈے نے اپنی کتاب ’اسٹوری نائٹس ‘میں ان سچائیوں کا تفصیلی تذکرہ کیا۔کچھ لڑکیوں کا کہنا ہے کہ اچھائی برائی سب جگہ ہوتی ہے۔ یہ تو آپ پر ہے کہ کیا منتخب کریں۔ لڑکیوں کو آڈیشن دینے تک کے لئے کپڑوں، کرائے کی گاڑیوں، نقلی زیوروں وغیرہ پر بہت پیسہ خرچ کرنا پڑتا ہے۔ آج جب فلمی دنیا میں صرف اور صرف فلمی شخصیات کے بچوں کا بول بالا ہے تو دوسروں کے لئے جگہ بہت ہی کم بچی ہے۔ پھر بھی ہر سال ہزاروں لڑکے لڑکیاں ممبئی کا رخ کرتے ہیں۔ کامیابی ان میں سے بہت کم کو ہی مل پاتی ہے۔ ٹسکا نے لکھا ہے کہ یہ سیدھے ڈیمانڈ اور سپلائی کا معاملہ ہے۔ یہاں ایکٹنگ کی چاہ رکھنے والوں کی بھاری بھیڑ ہے لیکن کام بہت کم ہے۔ اسی لئے لڑکیوں کو ہر طرح کے استحصال سے دو چار ہونا پڑتا ہے۔ اب تو لڑکے بھی اس سے نہیں بچے ہیں۔ حالانکہ کتاب میں انہوں نے اس سے بچنے کے طریقے بھی بتائے ہیں۔