حیدرآباد۔(یو این آئی) آندھرا پردیش کے وزیراعلی این کرن کمار ریڈی نے علاحدہ تلنگانہ ریاست کے قیام کے سلسلے میں کل لوک سبھا میں جس طرح بل کو منظور کیا گیا اس پر اپنی ناراضگی کا اظہار کرتے ہوئے اپنے عہدہ اور کانگریس کی بنیادی رکنیت سے آج استعفی دے دیا۔ اپنے کیمپ آفس میں ایک پرہجوم پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے مسٹر ریڈی نے کہا کہ ریاست کو دو حصوں میں تقسیم کرنے کے فیصلے کے خلاف بطور احتجاج وہ وزیراعلی کے عہدہ سے استعفی دے رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ وہ کانگریس اور اسمبلی سے اپنی رکنیت سے بھی مستعفی ہورہے ہیں۔جب ان سے پوچھا گیا کہ کیا وہ کوئی نئی پارٹی بنائیں گے تو انہوں نے کہا کہ انہیں اپنے مستقبل کے سلسلے میں کوئی دلچسپی نہیں ہے بلکہ وہ صرف تیلگو عوام کے لئے فکرمند ہیں۔بل کو جس انداز میں منظور کیا گیا اس کی شدید مذمت کرتے ہوئے مسٹر ریڈی نے کہا کہ ریاست کی تقسیم سے تلنگانہ سمیت تمام خطوں کے عوام کو کافی دشواریوں کا سامنا کرنا پڑے گا۔
پریس کانفرنس کے فوراً بعد مسٹر ریڈی راج بھون پہنچے اور اپنا استعفی نامہ گورنر ای ایس ایل نرسمہن کو سونپ دیا۔ انہوں نے دیگر وزیروں اور کم از کم ۱۵ ممبران اسمبلی کے استعفی بھی گورنر کو سونپے۔وزیراعلی بنانے کیلئے کانگریس کا شکریہ ادا کرتے ہوئے مسٹر ریڈی نے کہا کہ ریاست کو جس انداز میں تقسیم کیا گیا ہے اس سے تیلگو عوام کے مفادات کو نقصان پہنچا ہے اور وہ اس کے خلاف بطور احتجاج اپنے عہدہ اور پارٹی کی رکنیت سے استعفی دے رہے ہیں۔
پارٹی صدر سونیا گاندھی سے اپنی ملاقات کے حوالے سے ایک سوال کے جواب میں مسٹر ریڈی نے کہا کہ انہیں اس وقت ریاست کی تقسیم کے بارے میں کچھ بھی نہیں بتایا گیا تھا۔
انہوں نے کہاکہ وہ شروع سے ہی ایک متحد ریاست کے لئے لڑ رہے ہیں اور انہیں اپنے سیاسی مستقبل سے کوئی دلچسپی نہیں ہے۔مسٹر ریڈی کے ساتھ ان کی کابینہ کے آٹھ وزراء اور پندرہ سے زائد پارٹی ممبران اسمبلی بھی راج بھون گئے اور اپنے استعفی نامے گورنر کو سونپ دیئے۔مسٹر ریڈی نے کہا کہ تلنگانہ بل کو منظور کرانے کے پورے عمل میں آئینی التزامات اور روایات کی صریح خلاف ورزیاں کی گئیں۔ انہوں نے کہا کہ تلنگانہ پرسری کرشنا کمیشن کی ایک بھی سفارش پر غور نہیں کیا گیا۔ انہوں نے کہا کہ صرف سیٹوں اور اقتدار کے لئے ریاست کو تقسیم کیا گیا ہے جس سے تلنگانہ اور سیماندھرا علاقے کے تیلگو عوام کو ناقابل تلافی نقصان ہوگا۔ انہوں نے کہا کہ ۵۰برس قبل آندھراپردیش کے قیام کے بعد سے ہی ریاست نے زبردست ترقی کی ہے۔دریں اثناء مرکزی وزیر داخلہ سشیل کمار شنڈے نے مسٹر ریڈی کے استعفی پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ ان کے پاس اس کے علاوہ کوئی دوسرا راستہ نہیں تھا کیونکہ وہ شروع سے ہی متحد آندھرا پردیش کے لئے کوشش کررہے تھے۔
دوسری جانب آندھراپردیش کی تقسیم کے بل کی لوک سبھا میں منظوری کے بعد وائی ایس آر کانگریس اور تلگودیشم کے علاوہ مختلف متحدہ آندھراپردیش کے حامی گروپوں کی جانب سے سیماندھرا بند کے دوران آج رائل سیما اور ساحلی آندھرا کے تمام اضلاع میں عام زندگی درہم برہم رہی۔ذرائع نے بتایا کہ دکانیں‘ تجارتی اور تعلیمی ادارے بھی بند رہے۔ آر ٹی سی بسیں سڑکوں سے غائب رہیں۔ وائی ایس آر کانگریس پارٹی نے تلنگانہ بل کی لوک سبھا میں منظوری کو جمہوریت پر داغ قرار دیتے ہوئے بند کی اپیل کی تھی۔
دونوں جماعتوں کے قائدین اور کارکنوں نے ریاست کی تقسیم کے خلاف سیماآندھرا کے اضلاع میں بیشتر مقامات پر بڑے پیمانہ پر احتجاج کیا اور ریلیاں نکالتے ہوئے شدید ناراضگی کا اظہار کیا۔کئی مقامات پر مرکزی حکومت اور صدر کانگریس سونیا گاندھی کے پتلے نذرآتش کئے گئے۔
کئی مقامات سمیت سڑکوں پر رکاوٹیں کھڑی کی گئیں اور قومی شاہراہوں کو بھی بند کردیا گیا۔ صبح سے ہی دونوں جماعتوں کے قائدین علحدہ علحدہ طور پر بس اڈے پہنچے اور احتجاج کرتے ہوئے بسوں کو باہر آنے سے روک دیا۔کئی مقامات پر بڑے پیمانہ پر مظاہرے کئے گئے۔ وجئے واڑہ‘ گنٹور‘ وشاکھاپٹنم‘ اونگول‘ سریکاکلم‘ کاکیناڈا‘ راجمندری‘ نیلور‘ تروپتی‘ کڑپہ‘ اننت پور‘ کرنول اور سیما آندھرا کے دیگر ٹاونس میں بند مکمل رہا۔دریں اثنا ء سیماآندھرا کی مختلف یونیورسیٹیوں اور تعلیمی اداروں نے بند کے پیش نظر امتحانات ملتوی کردیئے ہیں۔
آندھراپردیش کی تقسیم کے بل کی لوک سبھا میں منظوری کے خلاف سیماآندھرا میں بند کے موقع پر تلگودیشم کے وشاکھاپٹنم کے صدر رامانائیڈو نے آج صبح اپنے جسم پر پٹرول چھڑک کر آگ لگا لینے کی کوشش کی۔ اس موقع پر کچھ دیر کے لئے کشیدگی پھیل گئی تاہم ان کے ساتھیوں نے انتہائی اقدام سے انہیں باز رکھا۔رامانائیڈو ریاست کی تقسیم کے خلاف برہم ہیں اور انہوں نے مرکز کے اس اقدام کے خلاف بطور احتجاج خودکشی کی کوشش کی۔اسی دوران پولیس کی جانب سے سیکوریٹی کے سخت انتظامات کئے گئے ہیں۔ کسی بھی ناگہانی واقعہ اور امکانی تشدد کو روکنے کے لئے بڑے پیمانہ پر انتظامات کئے گئے ہیں۔