آنکھوں کو روزانہ گردوغبار، مختلف قسم کا دھواں اور دیگر کثافتیں بھی متآثر کرتی ہیں، جن کے باعث آنکھوں کا معمولی چبھن اور بے چینی کا احساس، سرخی اور پانی بہنے کی شکایت ہو سکتی ہے۔ آنکھوں کو صاف پانی سے دھو لینے
سے یہ شکایت دور ہو سکتی ہے، لیکن بعض صورتوں میں معالج سے رجوع کرنا ضروری ہو جاتا ہے۔ ماہر امراض چشم آنکھوں کا مکمل معائنہ کرنے کے بعد ہی تکلیف کی اصل وجہ بتا سکتا ہے اور اس کے علاج کی طرف توجہ دی جاتی ہے۔آنکھوں کی عام بیماریوں میں بصارت کی کم زوری، بھینگا پن، پردہٓ بصارت کا متآثر ہونا، الرجی، سفید اور کالا موتیا شامل ہیں۔ ان سب میں سب سے خطرناک بیماری کو عام طور پر کالا موتیا کہا جاتا ہے، جب کہ طبی سائنس اسے Glaucoma کے نام سے شناخت کرتی ہے۔ دنیا بھر میں اندھے پن کی بڑی وجہ کالا موتیا ہے۔ ماہرین کے مطابق موتیا اور ذیابیطس سے ہونے والے اندھے پن کے 70 فی صد کیسز کو جلد تشخیص اور علاج سے کنٹرول کیا جاسکتا ہے۔
قدرت کی طرف سے آنکھوں کی حفاظت اور اس کے خلیات کی افزائش کا ایک نظام بنایا گیا ہے، جس کے تحت خون میں بننے والا مخصوص مواد آنکھوں تک پہنچتا ہے۔ اسے Aqueous humor کہتے ہیں۔ یہ ایک خاص دباوٓ کے ساتھ آنکھوں سے واپس بھی جاتا ہے، لیکن اس عمل کے عدم توازن کے نتیجے میں مواد کے واپس نہ جانے سے کئی پیچیدگیاں جنم لیتی ہیں اور کالے موتیا کی شکایت پیدا ہو جاتی ہے۔
ماہرینِ امراضِ چشم کے مطابق عام طور پر آنکھوں کا دباؤ 20 ایم ایم ایچ جی سے کم ہوتا ہے، لیکن اس مسئلے کی صورت میں یہ دباؤ 40 سے 50 تک پہنچ جاتا ہے۔ اس کی عام علامتوں میں آنکھوں اور سر میں درد، نظر کی کم زوری، چکر آنا، آنکھوں کا سرخ ہو جانا اور دھندلا پن شامل ہے۔ اگر یہ علامتیں ظاہر ہوں تو ہمیں فوراً ڈاکٹر سے رجوع کرنا چاہیے۔ کیوں کہ کالے موتیا کا علاج فوری طور پر نہ شروع کرنے بینائی سے محرومی کا اندیشہ ہوتا ہے۔ اس بیماری کے علاج کے لیے مخصوص دوائیں اور لیزر کا استعمال بھی کیا جاتا ہے۔ تاہم خطرناک بات یہ ہے کہ کالے موتیا کی علامتیں بینائی کو نقصان پہنچانے کے بعد ہی ظاہر ہوتی ہیں۔
ماہرین کے مطابق پچھلے برسوں میں دنیا بھر میں 70 لاکھ افراد اس مرض کی وجہ سے اپنی بینائی کھو چکے ہیں۔ شوگر اور بلڈ پریشر کا عارضوں میں مبتلا افراد کو موتیا کی بیماری لاحق ہونے کا خطرہ زیادہ ہوتا ہے۔ اس لیے ان امراض کا شکار افراد کو آنکھوں کے معالج سے معائنہ کرواتے رہنا چاہیے۔کالے موتیا کے علاج میں سب سے پہلے آنکھوں پر دباوٓ کو کنٹرول کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ ڈاکٹروں کے مطابق اسے لازمی طور پر 21 ایم ایم ایچ جی سے کم ہونا چاہیے۔ علاج کے دوسرے مرحلے میں ڈاکٹر کی کوشش ہوتی ہے کہ بینائی میں کمی کو روکا جاسکے۔ اس کے بعد معالج سرجری یا لیزر کے ذریعے علاج کی طرف متوجہ ہوتے ہیں۔ ماہرین کے مطابق اس مرض کے علاج کے کم وقت میں ہو جاتا ہے اور اس دوران کسی قسم کی تکلیف نہیں ہوتی۔ علاج کی صورت میں بینائی کے مزید متآثر ہونے کا سلسلہ رک جاتا ہے۔
آنکھوں کی عام شکایات سے بچنے کے لیے انہیں ہر دو سے تین گھنٹے بعد سادہ پانی سے دھونا چاہیے۔ جس قدر ممکن ہو گردوغبار سے بچا جائے، ٹیلی ویڑن اور کمپیوٹر اسکرین سے مناسب فاصلہ رکھیں اور لکھنے پڑھنے کے لیے ایسے کمرے یا جگہ کا انتخاب کریں جہاں روشنی کا مناسب انتظام ہو۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ ہر فرد کو سال میں کم از کم دو مرتبہ اپنی آنکھوں کا معائنہ کروانا چاہیے۔