لکھنؤ(نامہ نگار)اترپردیش اور مدھیہ پردیش کے لوگوں کیلئے یہ بات کسی خوش خبری سے کم نہ ہوگی کہ سابق مرکزی وزیر ریل آنجہانی مادھو راؤ سندھیا کا ڈریم پروجیکٹ اٹاوہ-گنا ریل لائن پر ٹرین چلانے کا کام آخری مرحلہ میں پہنچ گیا ہے۔ بھنڈ سے گنا تک تو لائن پر ٹرین گذشتہ دو سال سے دوڑ رہی ہے۔ جبکہ اٹاوہ اور بھنڈ کے درمیان ٹریک کا کام ۳۰ سال سے زیر تعمیر تھا جو اب مکمل ہوچکا ہے۔
محکمہ جاتی انجینئر بچھائی گئ
ی ریل لائین کی مانیٹرنگ کرنے میں لگے ہیں۔ پہلے مرحلہ میں ٹی ٹی ایم نے تقریباً ۵کلومیٹر تک ٹریک کا معائنہ کیا اگر سب کچھ ٹھیک رہا تو اس راستے پر مارچ کے مہینے سے ریل گاڑی کی آواز سنائی دینے لگے گی اور مال گاڑیاں چلنے لگیںگی۔ ذرائع کے مطابق آئندہ دو ماہ بعد جون میں سواری گاڑیاں بھی دوڑنے لگیںگی۔ دونوں ریاستوں کے لوگوںکو آمدورفت میں تمام مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے ان سے نجات مل جائے گی۔ ابھی مسافروں کو اٹاوہ سے بھنڈ کا کرایہ چالیس روپئے ادا کرنا پڑتا ہے۔ وہیں ٹرین سے جانے میں صرف ۱۰روپئے ادا کرنے ہوںگے۔ ذرائع نے بتایا کہ اس پروجیکٹ پر اب تک ۳۶۵کروڑ روپئے سے زیادہ خرچ ہو چکا ہے۔ ریل محکمہ اس نئے راستے پر ٹرینیں دوڑانے کی تیاری میں مصروف ہے۔ افسران دورہ کر رہے ہیں کہ کہیں کوئی کمی نہ رہ جائے۔
واضح رہے کہ ۳۰سال قبل ۱۹۸۴ء میں حکومت ہند کے سابق وزیر ریل آنجہانی مادھو راؤ سندھیا نے اس پروجیکٹ کا گنامیں سنگ بنیاد رکھا تھا۔ ان کے نظریہ کے مطابق اس پروجیکٹ کے شروع ہوتے ہی دونوں ریاستوں کے کاروبار کو فروغ حاصل ہوگا اس اہم پروجیکٹ کو تین مرحلوںمیںمکمل ہونا تھا۔ پہلا مرحلہ گنا سے گوالیار، دوسرا مرحلہ گولیار سے بھنڈاور تیسرا مرحلہ بھنڈ سے اٹاوہ۔ جس کے تحت جمنا ، چمبل اورکواری ندی پر پل تعمیر ہونا تھے۔ اس پروجیکٹ کے پہلے دومرحلے ۲۰۰۲ء میں مکمل کر کے عوام کو سونپے جا چکے ہیں۔بیہڑ کے خراب راستوں اور ندیوں پر تعمیر ہونے والے پلوں نے اس پروجیکٹ کے راستے میں کئی رکاوٹیں کھڑی کیں جس کی وجہ سے تیسرے اور آخری مرحلہ میں سب سے زیادہ وقت لگا، جبکہ اس کی لمبائی سب سے کم ہے۔ تیسرے مرحلہ میں اٹاوہ سے بھنڈ کے درمیان ریل لائن بچھائی جانی تھی۔ جس کی لمبائی صرف ۳۷کلومیٹر ہے۔