آگرہ، 27 نومبر (یو ان آئی)الہ اباد ہائی کورٹ کی ہدایت پر سکندرہ میں اکبر کے مقبرے کے احاطے میں سو سال سے رہ رہے کالے ہرنوں کو اب جلد ہی یہاں ہٹادیا جائے گا۔ انہیں چڑیا گھر منتقل کیا جا سکتا ہے۔ مقبرے کے آس پاس بھیڑیوں کی موجودگی سے ان کے لئے خطرہ پیدا ہوگیا ہے اور کئی ہرن ان کا لقمہ بن چکے ہیں اس کا عدالت نے سنجیدگی سے نوٹس لیا ہے اور 17 اکتوبر کو اترپردیش کے جنگلی حیات محکمہ کو ہدایت دی تھی کہ ان جانوروں کی حفاظت کے ضروری اقدام کئے جائیں۔ ہائی کورٹ نے ریاست سے کہا کہ وہ مرکز کے ساتھ تال میل کرکے ان کے لئے کوئی منصوبہ تیار کرے۔ عدالت نے چھ ہفتہ کے اندر فائل پیش کرنے کوبھی کہا تھا۔ اگلی سماعت 2 دسمبرکو ہونی ہے۔ ہائی کورٹ کے حکم پر محکمہ جنگلات ، محکمہ ماحولیات اور محکمہ آثار قدیمہ نے منگل کو مشترکہ سروے کیا تھا تاہم حتمی فیصلہ خود ہائی کورٹ ہی کرے گی۔
محکمہ جنگلات کے افسران کا خیال ہے کہ مقبرے کے احاطے میں 40 ہرنوں کے رہنے کی گنجائش ہے مگر اس وقت وہاں 90 ہرن ہیں۔محکمہ آثار قدیمہ کے ضابطوں کے لحاظ سے تاریخی یادگاروں کے آس پاس جنگلی جانور نہیں رہ سکتے۔ محکمہ باغبانی کو یو ں بھی ان کی دیکھ بھال کے بارے میں مہارت حاصل نہیں ہے۔ اب محکمہ جنگلات اور دیگر متعلق محکمے عدالت کیسامنے منصوبہ پیش کریں گے۔ایک سینئر افسر نے بتایا کہ تقریباً سو سال قبل انگریزوں نے یہاں کالے ہرنوں کو لاکر بسایا تھا کیونکہ وہ اس جگہ کو پسند کرتے تھے۔دریں اثنا یہ بھی فیصلہ کیا گیا ہے کہ جانوروں کا ایک ڈاکٹر روزانہ سکندرہ کا دورہ کرکے ان جانوروں کی صحت کی جانچ کرے گا ۔ محکمہ آثار قدیمہ کے محکمہ باغبانی نے اعلان کیا ہے کہ جوکوئی بھی علاقہ سے بھیڑیوں کو پکڑوانے میں مدد کرے گا اسے پانچ لاکھ روپے انعام دیا جائے گا۔
ضلع انتظامیہ نے مقبرے کے آس پاس ناجائز قبضوں کو ہٹانے کی بھی ہدایت دی ہے کیونکہ وہاں رہنے والوں کا باسی اور بچا کچا کھانا کھاکر ہرن بیمار پڑ جاتے ہیں۔اس وقت احاطہ میں 90 ہرن رہ رہے ہیں۔ انگریز 1918 میں کالے ہرنوں کا ایک جوڑا یہاں لائے تھے۔ ان کی تعداد بڑھ کر 135 ہوگئی تھی مگر 2008 میں اچانک 38 ہرن مرگئے تھے ۔ اس کا سبب بیماری بتایا گیا تھا۔ اس کے بعد ایک شخص گھنشام سنگھ نے ہائی کورٹ میں مفاد عامہ کی عرضی داخل کرکے کہا تھا کہ سکندرہ میں لاپرواہی کی وجہ سے کالے ہرن مارے جارہے ہیں جب سے اس نسل کے ناپید ہونے کا خطرہ پیدا ہوگیا ہے۔