ایان کے والد راجہ حفیظ اپنی بیٹی سے ملاقات کے لیے کسٹم کورٹ آئے لیکن ایان نے ان سے ملنے سے انکار کر دیا
پاکستان میں رواں سال مارچ میں مشہور ماڈل ایان علی کو اپنے سامان میں پانچ لاکھ ڈالر سمگل کرنے کے الزام میں گرفتار کیا گیا تھا اور گذشتہ کئی پیشیوں کی طرح آج بھی جب وہ عدالت
کے سامنے پیش ہوئیں تو اُن کے ریمانڈ میں 28 مئی تک توسیع کر دی گئی۔
شو بزنس سے وابستگی اور ملک کی مشہور ماڈل ہونے کے باعث اس کیس میں دلچپسی بہت ہے، تاہم کیا یہ دلچسپی حدیں پار کر رہی ہے؟
ایان علی اپنی پیشی پر عدالت میں آتے ہوئے کیسے کپڑے پہنتی ہیں اس پر مختلف ٹی وی چینلوں کے رپورٹر گہری نظر رکھتے ہیں۔ پیر کی صبح جب ایان راولپنڈی میں کسٹم کی عدالت پہنچیں تو رپورٹروں نے فوراً اپنے دفاتر کو فون کر کے بتایا کہ ایان نے سفید رنگ کی جیکٹ پہنی ہوئی ہے، اور سر پر ہُڈی کے ساتھ پی کیپ بھی ہے۔
اور پھر پولیس اور کیمرا مینوں کے درمیان گرما گرمی بھی ہوئی۔ کیمرا مین حضرات کی کوشش تھی کہ وہ ایان کے قریب سے قریب تر جائیں اور خصوصی شاٹ بنائیں۔ پولیس کی کوشش تھی کہ وہ ایان علی کو ان سے دور رکھیں۔
پولیس اہلکار کیمرا مین حضرات کے جھمگھٹے کو بخشی خانے، جج کے کمرے اور عدالت تک خوب گول گول چکر دیتے رہے۔
اس تماشے کو دیکھنے والے تماش بین بہت تھے جو کھڑکیوں، دوکانوں اور وکلا کے دفاتر سےآ کر مفت کی تفریح کے طور پر اسے دیکھتے رہے، اور ساتھ ساتھ اعتراضات بھی کرتے رہے۔
کسٹم عدالت کے ایک کلرک نے بتایا کہ ’یہاں تو ایسا ہے جیسے بکریوں کے آگے پیچھے دوڑ رہے ہوں۔ بہتر یہ ہو گا کہ باقی پیشیاں جیل کے اندر ہی کریں۔‘
تاہم جیل میں حالات مختلف نہیں ہیں۔
ایک نوجوان نے مجھے بتایا کہ ’جب ایان علی جیل گئیں تو اتفاق سے میں بھی اس وقت جیل گیا تھا۔ ادھر بھی لڑکے یہی بات کر رہے تھے کہ آج ایان نظر آئی، آج اس نے یہ کپڑے پہنے ہوئے تھے۔‘
کسٹم عدالت کے قریب موجود ایک کاروباری شخص نے کہا کہ اس کیس کو جلد نمٹا لینا چاہیے۔ انھوں نے کہا کہ ’دیکھیں نا، لوگ خواہ مخواہ یہاں تماشا دیکھنے آئے ہیں۔‘
جب تک سزا نہیں ہوتی، تب تک میڈیا ایسی رپورٹنگ کرتا رہے گا، کہ ایان کا میک اپ کس نے کیا، وہ اپنی بناوٹ کے لیے کتنے پیسے خرچ کرتی ہے، جیل میں کیا کھایا پیا اور گردن پر ٹیٹو کس لیے ہے: ایان کے والد
ایان کے والد راجہ حفیظ بھی آج کسٹم کورٹ آئے تاکہ اپنی بیٹی سے مل سکیں لیکن پہلے کی طرح اب بھی ایان علی نے اپنے والد سے ملنے سے انکار کر دیا۔ ان کے والد کا کہنا ہے کہ کیس کے بارے میں انھیں معلومات میڈیا کے ذریعے ہی ملتی ہیں۔
ایان علی کے والد نے کہا: ’برا تو اتنا لگتا ہے کہ دل پر چھریاں چلتی ہیں کہ ہماری بیٹی کے ساتھ ہو کیا رہا ہے۔ جو بھی کیس ہے، عدالت اس کو سزا دے تاکہ وہ پوری کرے۔ لیکن اس معاملے کو طول دیا جا رہا ہے اور کوئی نتیجہ بھی نہیں سامنے آ رہا۔‘
راجہ حفیظ نے کہا: ’جب تک سزا نہیں ہوتی، تب تک میڈیا ایسی رپورٹنگ کرتا رہے گا، کہ ایان کا میک اپ کس نے کیا، وہ اپنی بناوٹ کے لیے کتنے پیسے خرچ کرتی ہے، جیل میں کیا کھایا پیا اور گردن پر ٹیٹو کس لیے ہے۔‘
قائدِ اعظم یونیورسٹی اسلام آباد کی پروفیسر اور انسانی حقوق کی کارکن ڈاکٹر فرزانہ باری کہتی ہیں کہ میڈیا پر جو آتا ہے وہ معاشرے کی سوچ کی عکاسی کرتا ہے: ’ہمارے ہاں عورت کا بنیادی مقصد اس کی خوبصورتی اور جسامت ہے۔ ٹی وی چینل اس چیز پر توجہ کم دے رہے ہیں کہ ایان علی کا جرم کیا ہے اور عدالتی عمل کیا ہے، وہ اس کے کپڑوں اور میک اپ پر زیادہ غور کرتے ہیں۔‘
ایان علی کے عدالتی ریمانڈ میں 28 مئی تک توسیع ہو گئی ہے لیکن میڈیا کا یہ میلہ اُس وقت تک جاری رہے گا جب تک راولپنڈی کی کسٹم کی عدالت میں ایان کے خلاف مقدمے کی سماعت جاری رہے گی۔
کہتے ہیں کہ کیمرے کی آنکھ سے کچھ بھی نہیں چھپتا، لیکن ایان علی کے بارے میں میڈیا جو دکھانا چاہتا ہے، شاید اُس کا پوشیدہ رہنا ہی بہتر ہے۔