ایبولا کے مرض سے اب تک ساڑھے چار ہزار سے زائد افراد ہلاک ہو چکے ہی
عالمی ادرہِ صحت کا کہنا ہے کہ ایبولا کے صحت یاب ہونے والے مریضوں کے خون سے حاصل کیا گیا سِرم چند ہفتوں میں سب
سے زیادہ متاثر ہونے والے ممالک میں سے ایک لائیبیریا میں دستیاب ہوگا۔
جینوا عالمی ادارہ صحت میں طب اور ایجاد کے شعبے کی اسسٹنٹ ڈائریکٹر جنرل میں ڈاکٹر میری پاؤلے کینے کا کہنا تھا کہ اس مرض کے لیے دوا بنانے کے لیے کام تیزی سے جاری ہے اور اس کے لیے ویکسین جنوری 2015 تک دستیاب ہو گی۔
ایبولا کے مرض سے اب تک ساڑھے چار ہزار سے زائد افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔ زیادہ تر اموات گنی، لائبیریا اور سیرالیون میں ہوئی ہیں۔
ڈکٹر کینے کا کہنا ہے کہ آنے والے دنوں میں خون حاصل کر کے اسے استعمال کے قابل بنایا جائے گا۔ تاہم یہ واضح نہیں ہے کہ آیا یہ طلب کے مطابق ہو پائے گا یا نہیں۔
اگر ایبولا کا مریض اس بیماری سے کامیابی سے صحت یاب ہو جاتا ہے تو اس کا مطلب ہے کہ اس کے جسم میں وائرس سے مقابلہ کرنے کی صلاحیت ہے اور ان کے جسم میں ایسے اینٹی باڈیز پائے جاتے ہیں جو ایبولا کو ختم کر سکتے ہیں۔
ڈاکٹر اس افراد کے حون کے نمونے لے کر انھیں ایک عمل سے ذریعے سرم میں تبدیل کرتے ہیں جس میں اس خون سے سرخ خلیے الگ کر دیے جاتے ہیں اور دوسریے مریضوں کے علاج کے لیے اہم اینٹی باڈیز اس میں برقرار رہتے ہیں۔
مختلف ممالک میں بہت سے دوائیں بنائی اور ان کا تجربہ کیا گیا ہے
اس دوا کو پہلے جانچا جائے گا کے آیا یہ انسانوں کے لیے محفوظ ہے یا نہیں اور یہ کہ اس سے ایبولا سے بچا جا سکتا ہے یا نہیں۔
ایک مرتبہ ان تمام سوالوں کے جواب مل جائے تو عالمی ادارہ صحت لوگوں کے ایک بڑے گروہ پر تجربہ کرے گا جس کے بعد یہ دوا افریقہ بھجوائی جائے گی۔
ڈاکٹی کینے کے بقول ’آئندہ دو ہفتوں میں یہ تجربات شروع کر دیے جائیں گے اور چھ ماہ سے ایک سال تک جاری رہیں گے۔ تاہم ان کے محفوظ ہونے سے متعلق ابتدائی نتائج کا انتظار ہے اور اس سال کے آخر تک دسمبر میں اسے استعمال کے قابل بنانے کی کوشش کی جائے گی۔ ‘
ڈاکٹر کینے کے مطابق مختلف ممالک میں بہت سے دوائیں بنائی اور ان کا تجربہ کیا گیا ہے۔ ’آکسفورڈ یونیورسٹی اور ویلکم ٹرسٹ کی ایک ٹیم نے افریقہ کے متاثرہ تین ممالک کا دورہ کیا اور ان تجربات کے لیے مقامات کی نشاندہی کی۔ ‘