اسلام آباد: ایرانی پیٹرول اور ڈیزل کی اسمگلنگ میں بلوچستان کے ایک سینیئر پولیس افسر کے ملوث ہونے کا انکشاف ہوا ہے۔
بلوچستان حکومت کے محکمہ سروسز اینڈ جنرل ایڈمنسٹریشن (ایس اینڈ جی اے ڈی) کی جانب سے اسٹیبلشمنٹ ڈپارٹمنٹ کو لکھے گئے مراسلے میں کہا گیا ہے کہ سینیئر سپرنٹنڈنٹ آف پولیس (ایس ایس پی) اشفاق انور اپنے ماتحتوں کے ذریعے ایرانی تیل کی پاکستان میں اسمگلنگ سے ہر ماہ کروڑوں روپے کمارہے ہیں.
بلوچستان حکومت نے اسٹیبلشمنٹ ڈویژن کے سیکرٹری سے ایس ایس پی کو معطل کرکے اس کے خلاف محکمہ جاتی کارروائی کا مطالبہ کیا ہے۔
صوبائی حکومت کی جانب سے ایس ایس پی اشفاق انور کے خلاف بنائی جانے والی چارج شیٹ کے مطابق وہ اپنے ماتحتوں کے ذریعے فی کس آئل ٹینکر سے 27000 روپے اور فی کس مسافر کوچ سے 7000 سے 8000 روپے رشوت وصول کرتے ہیں۔
اس کے علاوہ ایس ایس پی پر الزام ہے کہ وہ پولیس کے کانسٹیبل اور ہیڈ کانسٹیبل کے ٹرانسفر اور پوسٹنگ پر 8 سے 10 ہزار روپے رشوت بھی وصول کرتے ہیں۔
بلوچستان حکومت کی چارج شیٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ ایس ایس پی اشفاق انور نے اپنے علاقے میں امن وامان کی صورت حال کو کنٹرول میں دکھانے کے لیے تمام اسٹیشن ہاؤس افسران (ایس ایچ اوز) کو اُس وقت تک کسی بھی جرم کی ایف آئی آر درج کرنے سے منع کیا ہے جب تک اُن سے اجازت نہ لی جائے.
وفاقی حکومت کے ایک سینیئر عہدیدار نے دعویٰ کیا ہے کہ ایران سے اسمگل کیا جانے والا تیل جعفر آباد کے ذریعے سندھ میں داخل ہوتا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ اس غیر قانونی تجارت میں سندھ پولیس کے افسران بھی ملوث ہیں، جن کی نشاندہی کی جاچکی ہے اور ان کے خلاف انکوئری کا آغاز ہوچکا ہے۔
ایس ایس پی اشفاق انور، جنھیں مذکورہ الزامات کے بعد معطل کردیا گیا ہے، نے خود پر لگنے والے تمام الزامات کی تردید کی ہے۔
اشفاق انور کا کہنا تھا کہ ان کے خلاف محکمہ جاتی انکوائری کا حکم دیا جاچکا ہے اور وہ انکوائری کمیٹی کے سامنے اپنا دفاع کریں گے.
ایک اندازے کے مطابق پاکستان میں یومیہ استعمال ہونے والے تیل کا 7 لاکھ لیٹر ایران سے اسمگل ہوتا ہے۔
دوسری جانب پیٹرولیم ڈیلرز کے مطابق پاکستان میں استعمال ہونے والے پیٹرول کا 15 سے 20 فیصد ایران سے اسمگل ہوتا ہے جبکہ اسمگل شدہ پیٹرول اور ڈیزل اکثر بلوچستان اور سندھ کے بعض علاقوں میں فروخت ہوتا ہے، جن میں کراچی بھی شامل ہے۔
پاکستان پیٹرولیم ڈیلرز ایسوسی ایشن کے چیئرمین عبدالسمیع خان نے ڈان کو بتایا کہ ایران سے اسمگل کیا جانے والا پیٹرول اور ڈیزل لگائے گئے اندازوں سے کہیں زیادہ فروخت ہوتا ہے۔
انھوں نے کہا کہ گاڑیوں میں استعمال کے علاوہ اسمگل شدہ تیل گھروں، فیکٹریوں اور دفاتر میں لوڈشیڈنگ کے دوران جنریٹروں میں بھی استعمال کیا جارہا ہے۔
عبدالسمیع کا کہنا تھا کہ اسمگل ہونے والا تقریباً آدھا تیل بلوچستان میں ہی استعمال ہوجاتا ہے جبکہ باقی کا تیل ڈیرہ غازی خان کے ذریعے کراچی منتقل کیا جاتا ہے۔
انھوں نے الزام لگایا کہ اس سارے معاملے میں قانون نافذ کرنے والے اہلکار ملوث ہیں۔
بلوچستان سے تعلق رکھنے والے ایک سیکیورٹی اہلکار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ سرحدی علاقوں کے قریب رہنے والے پاکستانیوں کو ایرانی حکومت کی جانب سے ایران میں داخلے کی اجازت ہے اور یہ پاکستانی ایران سے واپسی پر اپنے ساتھ تیل بھی لاتے ہیں۔
اہلکار نے بتایا کہ تربت کے علاقے میں یہ اسمگل شدہ تیل آئل ٹینکروں میں منتقل کیا جاتا ہے تاکہ دیگر علاقوں کو بھیجا جاسکے۔ ’اسمگلرز سرحدی علاقوں پر قائم چیک پوسٹوں اور شہر کے داخلی اور خارجی راستوں پر رشوت دیتے ہیں تاکہ تیل کو اس کے مقام پر منتقل کیا جاسکے۔‘