ایرانی پاسداران انقلاب کے ڈپٹی جنرل کمانڈنگ آفیسر بریگیڈئر حسین سلامی نے خبردار کیا ہے کہ اگر پاکستان نے تہران مخالف گروپوں کی روک تھام کے لئے اپنی سرحدوں کا کنڑول مضبوط نہ کیا تو ان کا ملک پاکستانی علاقے میں مداخلت کر سکتا ہے۔
ایران کی سرکاری نیوز ایجنسی ‘ایرنا’ نے حسین سلامی کی ایک نیوز کانفرنس رپورٹ کرتے ہوئے ان سے
ایک بیان منسوب کیا ہے کہ پاسداران انقلاب کے انٹیلیجنس اداروں نے ہمسایہ ملکوں میں ایران مخالف گروپوں کی نقل و حرکت مانیٹر کی ہے۔ یہ سرگرمیاں اس وقت ریکارڈ کی گئیں جب جیش العدل نامی سنی مسلک بلوچ تنظیم نے فوجیوں کے علاوہ مشرقی صوبے بلوچستان میں پاسداران انقلاب سمیت متعدد دیگر حکومتی اہداف پر حملوں کا ایک سلسلہ شروع کیا تھا۔
جیش العدل نے بلوچستان کے علاقے میں 8 اکتوبر کو چار ایرانی سرحدی محافظوں کے قتل کی ذمہ داری قبول کی تھی جبکہ گذشتہ ہفتے بھی پیرانشھر میں قائم مقام پر ناکام قاتلانہ حملہ کیا۔
صوبہ بلوچستان کے صدر مقام زھدان کے قریب گذشتہ ہفتے ہی ایک چھوٹے طیارے کے حادثے میں 7 پولیس اہلکار ہلاک ہوئے۔ یہ جہاز وزارت داخلہ کے ایک افسر کو سراوان کے علاقے میں ہونے والے قتل اور فوجی کارروائیوں کی تحقیق کے لئے لیکر جا رہا تھا۔
بلوچی تنظیم جیش العدل نے جہاز گرانے کی ذمہ داری قبول کی اور بعد میں جمعرات کے روز تباہ ہونے والے جہاز کا ملبہ تلاش کرنے والی امدادی ٹیم کے ایک رکن کو بھی جیش العدل نے قتل کرنے کی ذمہ داری قبول کر لی۔ اس سے پہلے ‘فارس’ نامی نیوز ایجنسی جہاز کی تباہی کا سبب فنی خرابی بتا چکی تھی۔
ادھر دوسری جانب ایرانی پولیس اور دیگر سیکیورٹی اداروں نے صوبہ بلوچستان کے مختلف علاقوں میں اشتہاری افراد کی گرفتاریوں کے لئے چھاپے مارے جبکہ بلوچستان پولیس کے سربراہ نے جمعہ کے روز پولیس افسروں کے قتل میں ملوث چودہ مشتبہ افراد کی گرفتاری کا دعوی کیا ہے۔
ایران کی داخلی سلامتی فورس کے سربراہ بریگیڈئر اسماعیل احمد مقدم نے تصدیق کی ہے کہ انہوں نے مشتبہ مسلح بلوچی گروپوں سے تعلق رکھنے والے دسیوں افراد کو گرفتار کیا ہے۔ ان سے سراوان حادثے میں ملوث افراد کے بارے میں تفتیش کی جا رہی ہے۔
جیش العدل اور علاقے میں سرگرم دیگر بلوچ گروپ پاکستانی علاقے سے ایرانی سیکیورٹی فورس اور پاسداران انقلاب پر حملے کرتے رہتے ہیں۔ ایران مخالف گروپ ان حملوں کا سبب تہران حکومت کی فرقہ وارانہ اور نسلی امتیاز کی پالیسی کو قرار دیتے ہیں۔
بشکریہ العربیہ ڈاٹ نیٹ، صالح حميد