ایران کی نائب صدر معصومہ ابتکارکا کہنا ہے کہ ایران گذشتہ ماہ ہونے والے جوہری معاہدے کے بعد مشرقِ وسطیٰ میں امن وامان کے قیام کے لیے دیگر عالمی طاقتوں کے ساتھ مل کر کام کرنا چاہتا ہے۔
بی بی سی کو دیے گئے ایک انٹرویو میں ابتکار نے اس بات پہ زور دیا کہ ایران کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ اپنا دفاع کرے لیکن اس کا خطے پہ غالب آنے کا کوئی ارادہ نہیں ہے۔
انھوں نے کہا کہ ان کا ملک پڑوسی ممالک پر اپنا اعتماد بحال اور شدت پسند گروہوں کا مقابلہ کرنے کے لیے تعاون کرنا چاہتا ہے۔
خیال رہے کہ ایران پر مشرقِ وسطیٰ میں بدامنی کو ہوا دینے کا الزام عائد کیا جاتا ہے۔
ایران پر الزام عائد کیا جاتا ہے کہ وہ شامی صدر بشارالاسد اور لبنانی شیعہ اسلامی گروپ حزب اللہ کو ہتھیار اورمالی امداد فراہم کرتا ہے اور مبینہ طور پر یمن کے باغی زیدی شیعہ حوثی تحریک کی پشت پناہی کرتا ہے۔
لیکن گذشتہ سال عراق میں شدت پسند تنظیم دولتِ اسلامیہ کے خلاف جنگ میں بھی ایران نے اہم کردار ادا کرتے ہوئے شیعہ ملیشیا کو متحرک کیا اور عراقی فوج کی مدد کی لیے مشیر بھیجے۔
نائب صدد نے امریکی کانگریس میں جوہری معاہدے کے ناقدین کا یہ دعویٰ بھی مسترد کردیا کہ ایران پر اعتماد نہیں کیا جاسکتا
نائب صدر ابتکار نے ایران میں ایک ہفتے پر مشتمل اسائمنٹ کے دوران بی بی سی کی نامہ نگار کِم گٹاس کو انٹرویو دیا ہے۔
خیال رہے کہ جون 2009 میں جب محمود احمدی نژاد کے دوبارہ الیکشن سے ایران میں بڑے پیمانے پر فسادات پھوٹ پڑے تھے اس کے بعد سے ایک طویل مدت بعد بی بی سی کو ایران میں رپورٹ کرنے کی اجازت دی گئی ہے۔
انٹرویو میں ابتکار کا کہنا تھا کہ سنگین پابندیوں کے خاتمے کے لیے ایران کا امریکہ سے ہونے والا حالیہ جوہری معاہدہ جس میں ایران نے اپنی جوہری سرگرمیوں کو محدود کرنے پہ اتفاق کیا ہے یہ پوری دنیا کے لیے ’قدم آگے بڑھنے‘ کو ظاہر کرتا ہے۔
انھوں نے وضاحت کی کہ ’اس کا مطلب ہے کہ ثقافتی اور تجارتی سطح کے مختلف پہلوؤں پر دنیا کے ساتھ مل کر کام کرنے کے ایک نئے دور کا آغاز ہورہا ہے۔‘
’اس کا مطلب ہے کہ ایران دنیا میں مزید مستحکم کھلاڑی کے طور پر کردار ادا کرے گا۔‘
ایران پر الزام عائد کیا جاتا ہے کہ وہ یمن کے باغی زیدی شیعہ حوثی تحریک کی پشت پناہی کرتا ہے
نائب صدر نے اس بات پہ زور دیا کہ ایران اُن کی حمایت ختم نہیں کرے گا ’جنھیں صیہونی اقتدار کی پالیسیوں سے خطرات لاحق ہیں‘ مطلب اسرائیل، اورایک ایسے خطے میں جہاں بہت سے امریکی فوجی اڈے موجود ہیں اس لیے اُسے خود کو اس قابل بنانا ضروری ہے کہ وہ اپنا دفاع کرسکے۔
تاہم انھوں نے مزید کہا کہ ایران ’امن اور استحکام کے فروغ کے لیے‘ اپنا اثرورسوخ استعمال کرنا چاہتا ہے۔‘
’ہمارے وزیرِ خارجہ پورے خطے کے دورے کررہے ہیں کیوں کہ دوسرے ممالک کے ساتھ تعلقات برقرار رکھنا اور اعتماد کی بحالی ہمارے لیے ایک لیے ایک بڑا مسئلہ ہے۔‘
انھوں نے عربی میں شدت پسند تنظیم دولتِ اسلامیہ پر مبنی گروپ کے سابق نام کے مخفف پر مبنی ایک اصطلاح کا استعمال کرتے ہوئے مزید کہا کہ ’ہم دہشت گردی کے خلاف، شدت پسندی کے خلاف، داعش کے خلاف ہیں، جو کہ خوف کی علامت ہے، مختلف خلیجی ریاستوں کے ساتھ مل کر کام کرنے اُمید کرتے ہیں کہ اعتماد بحال کرنے میں کامیاب ہوجائیں گے۔‘
انھوں نے انکشاف کیا کہ ایران سعودی عرب کے ساتھ سفارتی سطح پر’بات چیت کی کوشش کررہا ہے۔‘ خیال رہے سعودی عرب یمن میں حوثی باغیوں کی خلاف کارروائی میں بین الاقوامی اتحاد کی سربراہی کر رہا ہے۔
’ہمیں یمن میں جاری جنگ کے خاتمے کا حل نکالنا ہوگا کیوں کہ یہ جنگ قوم کے لیے تباہ کُن ہے۔‘
ابتکار کا یہ بھی کہنا تھا کہ جوہری معاہدے کو ایران میں حمایت حاصل ہوئی ہے جیسا کہ صدر حسن روحانی، اور ملک میں دیگر سیاسی جماعتوں میں مفاہمتی فضا بحال ہوئی ہے۔
عراق میں شدت پسند تنظیم دولتِ اسلامیہ کے خلاف جنگ میں بھی ایران نے اہم کردار ادا کرتے ہوئے شیعہ ملیشیا کو متحرک کیا
انھوں نے مزید بتاتے ہوئے کہا کہ ’مجھے لگتا ہے اس معاہدے پر اندورنی بحث چھڑی ہوئی ہے اور آپ خود بھی انھیں سن سکتے ہیں ۔ کچھ اس پر تنقید کرتے ہیں اور کچھ اس کے مکمل مخالف ہیں۔‘
’لیکن مجموعی طور پر ایرانی عوام کی اکثریت اس کو ایک مثبت قدم کے طور پر دیکھ رہے ہیں۔‘
ایرانی ایوان کے سخت گیر اور پاسداران انقلاب اس جوہری معاہدے پر کڑی تنقید کر رہے ہیں لیکن یہ توقع نہیں کی کہ وہ اس کو ختم کرنا چاہیں گے۔
نائب صدد نے امریکی کانگریس میں جوہری معاہدے کے ناقدین کا یہ دعویٰ بھی مسترد کردیا کہ ایران پر اعتماد نہیں کیا جاسکتا کہ وہ تمام شرائط و ضوابط پر عمل کرے گا۔
’میرا خیال ہے کہ ایران نے بہت واضح انداز میں کہا ہے کہ وہ اس معاہدے پر قائم رہے گا۔ اور اس بات کے برعکس بہت سے شواہد اس حقیقت کی طرف اشارہ کرتے ہیں کہ ایران بین الاقوامی سطح پر اپنے وعدوں کا پاسداری کرتا ہے۔‘