امریکی صدر براک اوباما کا کہنا ہے کہ امریکی قانون ساز، امریکا اور اقوام متحدہ کے دیگر مستقل رکن ممالک اور جرمنی کو معاملے کے سفارتی حل کے لیے ایرانی عزم کا امتحان لینے دیں۔
وائٹ ہائوس کا کہنا ہے کہ ایران کے جوہری پروگرام سے متعلق کسی بھی نئی پابندی کے لیے ہونے والی قانون سازی کو ویٹو کر دیں گے۔
سینیٹ میں جمعرات کو 26 ڈیموکریٹس اور ریپبلکنز سینیٹرز کی حمایت سے ایک نیا قانونی مسودہ متعارف کروایا گیا جسے جوہری ہتھیاروں سے پاک ایران ایکٹ 2013ء کا نام دیا گیا ہے، جس میں ایران کے توانائی کے شعبے پر تعزیرات بڑھائی جا سکیں گی۔
اس مسودے کے مطابق اگر اسرائیل، ایرانی تنصیبات کے خلاف فوجی کارروائی کرتا ہو تو امریکا کی طرف سے اسرائیل کی فوجی، سفارتی اور اقتصادی مدد کرنی چاہیے۔
صدر براک اوباما کا کہنا ہے کہ امریکی قانون ساز امریکا اور اقوام متحدہ کے دیگر مستقل رکن ممالک اور جرمنی کو معاملے کے سفارتی حل کے لیے ایرانی عزم کا امتحان لینے دیں۔
ایران اور ان ملکوں کے درمیان جمعرات کو جنیوا میں مذاکرات دوبارہ شروع ہوئے جس میں اقتصادی پابندی میں نرمی کے بدلے تہران کے جوہری پروگرام کو ختم کرنے سے متعلق بات چیت شروع ہوئی۔
امریکی سینٹ میں پیش کیے گئے قانونی مسودے پر جنوری سے قبل رائے شماری متوقع نہیں اور اسے مسترد کرنے کے لیے قانون سازوں کو انتظامیہ کی طرف سے مزید دبائو کا سامنا ہوسکتا ہے۔
وائٹ ہائوس کے ترجمان جے کارنے کا کہنا تھا صدر اوباما نئی پابندیوں سے متعلق کسی بھی بل کو ویٹو کر دیں گے۔
“ہم نہیں سمجھتے کہ اس تجویز کی ضرورت ہے، کیونکہ ہم یہ واضح کر چکے ہیں اور اس پر ہم کانگریس کے ممبران سے کچھ عرصے سے بات چیت کرتے رہے ہیں۔ ہم نہیں سمجھتے کہ یہ نافذ ہوگا ۔۔۔ اگر یہ منظور ہونا ہو گا تو صدر اسے ویٹو کریں گے۔”
کارنے کا کہنا تھا کہ وائٹ ہائوس قانون سازوں کے ساتھ “باقاعدگی سے براہ راست” بات چیت کرتا رہا ہے اور یہ اس بات کو دہراتا رہا ہے کہ اگر ایران معاہدے پر عمل پیرا ہونے سے ناکام ہوتا ہے تو کانگریس اور پر فوری کارروائی کر سکتی ہے۔