واشنگٹن۔:امریکا اور ایران کے درمیان حالیہ دنوں میں آنے والی ابتدائی اور جزوی نوعیت کی بہتری کے باوجود سلامتی سے متعلق براک اوباما کے ایک مشیر کا کہنا ہے کہ ”محض ایرانی جوہری پروگرام پر شروع ہو نے والی بات چیت کی بنیاد پر امریکا ایران پر عائد شدہ پابندیوں میں نرمی کا ارادہ نہں رکھتا ہے۔”
امریکی صدر کے نائب مشیر بن روہڈز کا ایک عالمی خبر رساں ادارے سے خصوصی بات چیت کرتے ہوئے کہنا تھا کہ ” اسلامی جمہوریہ ایران کو پابندیاں ختم کرانے کیلیے اپنے جوہری پروگرام کے حوالے سے ٹھوس اقدامات کرنے ہوں گے۔”
واضح رہے امریکا کو ایرانی جوہری پروگرام کے بارے میں شبہات ہیں” ہو سکتا ہے کہ ایران پرامن جوہری پروگرام کی آڑ میں جوہری ہتھیار تیار کر لے۔ ”البتہ ایران کا موقف ہے کہ اس کا جوہری پروگرام صرف پرامن مقاصد کیلیے ہے۔
ایران کے اسی موقف کی صداقت کو جانچنے اور اپنے شکوک کے بارے میں حقائق تک پہنچنے کیلیے دنیا کی چھ بڑی طاقتوں نے جنیوا میں ایران کے ساتھ مذاکرات کیے ہیں، تاکہ اس تنازعے کا سفارتی حل سامنے لایا جا سکے۔
اس سے پہلے ہی صدر اوباما یہ کہہ چکے ہیں کہ” امریکا ایران کو جوہری ہتھیار بنانے کی اجازت نہیں دے گا اور ایسی کسی بھی صورت سے نمٹنے کیلیے تمام ممکنہ آپشنز کو مد نظر رکھا جائے گا، حتی کہ فوجی آپشن کا استعمال بھی کیا جا سکتا ہے۔”
لیکن ساتھ ہی صدر اوباما یہ بھی باور کرا چکے ہیں کہ ان کی ترجیح بہرحال بات چیت سے مسئلے کا حل ہے۔ امریکی ذرائع کے مطابق ایک امکان جس کا ایران کے خلاف عائد پابندیوں میں نرمی کے حوالے سے ہو سکتا ہے کہ ایران کیخلاف پابندیاں جنہوں نے ایرانی معیشت کو کمزور کر دیا ہے مرحلہ وار بنیادوں پر ختم کی جائیں تاہم اس آپشن کیلیے بھی ایران کو اپنے جوہری پروگرام کے پر امن ہونے کے ٹھوس ثبوت دکھانا ہوں گے۔
یاد رہے ایران پر امریکا اور مغربی ممالک کی طرف سے پابندیاں 2011 میں لگائی گئی تھیں۔ ان پابندیوں کے نتیجے میں ایرانی تیل کی فروخت متاثر ہو نے سے اس کی آمدنی اربوں ڈالر کم ہو چکی ہے۔
امریکی صدر کے نائب مشیر کا مزید کہنا تھا ” ایران کو ایک پیش کش یہ کی جا سکتی ہے کہ اسے اس کے منجمد کردہ اثاثوں تک رسائی دے دی جائے” واضح رہے 17 اکتوبر کو نیو یارک ٹائم نے بھی اسی طرح کی رعایتوں کی طرف اشارہ کیا تھا کہ ایران پر لگائی گئی پابندیوں کو ختم کیے بغیر ایران کو ریلیف دیا جا سکتا ہے۔ کیونکہ محض ایک سال کے دوران ایران کی تیل کی برآمدات آدھی رہ گئی ہیں۔
ایران کی طرف سے ٹھوس اقدامات کیا ہو سکتے ہیں اس بارے میں امریکی سلامتی کیلیے اوباما کے نائب مشیر کا کہنا تھا ” امریکا کے ہاں کوئی ایسی آپشن زیر غور نہیں ہے کہ محض ان مذاکرات کی بنیاد پر پابندیاں ختم کر دی جائیِں، ابھی ایران کے ارادوں کو سمجھنا ضروری ہے ۔”
بن روہڈز نے واضح کیا اوباما انتظامیہ ایران سے کسی سمجھوتے تک پہنچنے کیلیے کانگریس سے قدرے نرمی چاہتی ہے، کہ کانگریس کے ارکان ایران کے خلاف کسی نئی پبندی کے لگانے سے پہلے مذاکرات میں ہونے والی پیش رفت کو دیکھ لیں۔”
بن روہڈز نے عالمی برادری کی مرضِی کیخلاف دو مرتبہ جوہری ٹیسٹ کرنے والے شمالی کوریا کو دوسرے ملکوں کیلیے بدترین مثال قرار دیا اور کہا” کیا کوئی ملک ایسا ہو سکتا ہے جو چاہے اس کی معیشت سکڑ کر شمالی کوریا کی طرح ہو جائے اور اسی کی طرح وہ دنیا میں تنہا ہو کر رہ جائے۔”