ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ علی خامنہ ای نے کہا ہے کہ ”ملک کے جوہری تحقیق کے پروگرام کو کبھی سست نہیں ہونے دیا جائے گا”۔انھوں نے ایرانی مذاکرات کاروں پر زوردیا ہے کہ وہ عالمی طاقتوں کے ساتھ جوہری پروگرام پر معاملہ کرتے وقت سختی کا مظاہرہ کریں۔
ایران کی سرکاری خبررساں ایجنسی ایرنا کی رپورٹ کے مطابق خامنہ ای نے تہران میں جوہری سائنس دانوں سے خطاب میں کہا کہ ”یہ مذاکرات جاری رہنے چاہئیں لیکن سب کو یہ جان لینا چاہیے کہ ان مذاکرات سے ایران کی جوہری تحقیق اور ترقی سے متعلق سرگرمیاں ختم یا سست رفتار نہیں ہوں گی”۔
انھوں نے کہا کہ ”ملک کی جوہری کامیابیوں کو روکا نہیں جا سکتا اور کسی کو بھی اس پر سودے بازی کی اجازت نہیں ہے”۔ تاہم انھوں نے کہا کہ ”یہ مذاکرات جاری رہنے چاہئیں لیکن اس کے ساتھ ہی ہر کسی کو یہ بات جان لینی چاہیے کہ بات چیت جاری رہنے کی صورت میں بھی جوہری تحقیق اور ترقی کے شعبے میں اسلامی جمہوریہ کی سرگرمیاں روکی نہیں جائیں گی”۔
آیت اللہ خامنہ ای کے اس انتباہی بیان سے چندے قبل ہی ویانا میں یورپی یونین کی خارجہ پالیسی کی سربراہ کیتھرین آشٹن اور ایرانی وزیرخارجہ محمد جواد ظریف کے درمیان جوہری تنازعے سے متعلق سمجھوتے کو حتمی شکل دینے کے لیے دوروزہ بات چیت ختم ہوئی ہے اور انھوں نے 13 مئی کوویانا ہی میں مذاکرات کے اگلے دور سے اتفاق کیا ہے اور اس میں ایران اور چھے بڑی طاقتوں کے درمیان سمجھوتے کو حتمی شکل دی جائے گی۔تاہم فریقین کے درمیان ابھی وسیع اختلافات پائے جارہے ہیں۔
کیتھرین آشٹن نے بدھ کو بات چیت کے اختتام پر نیوزکانفرنس میں کہا کہ ”اختلافات کے خاتمے کے لیے ابھی بہت کام کرنے کی ضرورت ہے۔اب ہم مذاکرات کے اگلے مرحلے میں داخل ہوجائیں گے اور اس میں ہمارا مقصد اہم شعبوں میں اختلافات کا خاتمہ ہے اور ہم ممکنہ جامع سمجھوتے کے ٹھوس عناصر پر کام کریں گے”۔
ایرانی وزیرخارجہ محمدجواد ظریف نے صحافیوں سے گفتگو میں کہا کہ ”فریقین کے درمیان 50 سے 60 فی صد تک اتفاق رائے پایا جاتا ہے اور 20 جولائی کی ڈیڈلائن سے قبل ہی حتمی سمجھوتا طے کر لیا جائے گا”۔مجوزہ سمجھوتے کے تحت ایران یورینیم کی افزدوگی کی تمام سرگرمیوں کو محدود کردے گا اور اس کے بدلے میں اس پر عاید اقتصادی پابندیاں بتدریج نرم یا ختم کردی جائیں گی۔
کیتھرین آشٹن ایران کے ساتھ مذاکرات میں چھے بڑی طاقتوں (امریکا،برطانیہ ،روس ،فرانس ،چین اور جرمنی) کی نمائندگی کررہی ہیں۔امریکا اور اس کے اتحادی تین مغربی ممالک ایران کو جوہری بم کی تیاری سے باز رکھنا چاہتے ہیں اور وہ اس کے یورینیم کی افزودگی کے پروگرام کو اس انداز میں محدود کرنا چاہتے ہیں کہ اگر وہ جوہری بم بنانا چاہے تو اس کے لیے درکار ایندھن کی تیاری میں اس کو کم سے کم ایک سال کا وقت لگے لیکن روس اور چین نے اس کے بین بین موقف اختیار کررکھا ہے۔
امریکی وزیرخارجہ جان کیری کے بہ قول فی الوقت ایران دوماہ کے عرصے میں ایک جوہری بم کے لیے درکار افزودہ یورینیم تیار کرسکتا ہے۔امریکا،اسرائیل اور ان کے مغربی اتحادی ایران کے بارے میں اس شک کا اظہار کرتے رہے ہیں کہ وہ جوہری بم تیار کرنا چاہتے ہیں لیکن ایران کا یہ موقف رہا ہے کہ اس کا جوہری پروگرام پُرامن مقاصد کے لیے ہے۔واضح رہے کہ فریقین نے اب تک جوہری مذاکرات میں اپنے اپنے اس موقف کی وضاحت کے لیے ہی دلائل پیش کیے اور نکات اٹھائے ہیں۔