واشنگٹن: صدر محترم: گڈ ایوننگ۔ اسلامی جمہوریہ ایران کے جوہری پروگرام کے بارے میں اپنے خدشات دور کرنے کے لئے، آج امریکہ نے اپنے قریبی اتحادیوں اور شراکت کاروں کے ساتھ مل کر ایک جامع حل کی جانب پہلا اہم قدم اٹھایا۔
جب میں نے اپنا عہدہ سنبھالا تو میں نے ایران کو جوہری ہتھیار حاصل کرنے سے روکنے کے بارے میں اپنا عزم مصمم واضح کردیا تھا۔ جیسا کہ میں کئی بار کہہ چکا ہوں کہ میری یہ اولین ترجیح ہے کہ ہم اس مسئلے کو پرامن طریقے سے حل کریں۔ لہذا ہم نے سفارت کاری کا ہاتھ بڑھایاہے۔ تاہم کئی سالوں تک ایران بین الاقوامی برادری کے سامنے اپنی فرائض پورے کرنے پر غیر رضامند رہا ۔ لہذا میری انتظامیہ نے کانگرس، اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل اور دنیا بھر کے ممالک کے ساتھ مل کر ایران حکومت پر ایسی پابندیاں عائد کیں جن کی کوئی مثال نہیں ملتی۔
ان پابندیوں کا ایرانی معیشت پر خاطر خواہ اثر ہوا ہے۔ اس سال کے شروع میں نئے ایرانی صدر کے انتخاب سے سفارت کاری کا ایک موقع میسر آیا ہے۔ اس سال موسم خزاں کے شروع میں میں نے ایران کے صدر روحانی سے ذاتی طور پر بات کی۔ وزیرخارجہ کیری ایرانی وزیرخارجہ سے کئی بار مل چکے ہیں۔ ہم نے ایرانیوں کے ساتھ دوطرفہ اور اپنے شراکت داروں یعنی پانچ عالمی طاقتوں بمعہ جرمنی (P5+1) کے ساتھ مل کر بھر پور سفارت کاری کا سلسلہ جاری رکھا۔ ان ممالک میں برطانیہ، فرانس، جرمنی، روس، اور چین کے ساتھ ساتھ یورپین یونین بھی شامل ہے۔
آج اس سفارت کاری نے ایک ایسی دنیا کے لئے نئی راہ کھولی ہے جو زیادہ محفوظ ہے اور ایک ایسا مستقبل جس میں ہم یہ تصدیق کر سکتے ہیں کہ ایران کا جوہری پروگرام پر امن ہے اور وہ جوہری ہتھیار نہیں بنا سکتا۔
گو کہ آج کا اعلان محض ایک پہلا قدم ہے مگر اس سے بہت کچھ حاصل ہوا ہے۔ تقریبا ایک عشرے میں ہم نے ایران کے جوہری پروگرام کے عمل کو روک دیا ہے اور آئندہ اس پروگرام کے کلیدی حصوں میں کمی لائی جائے گی۔ ایران نے مخصوص درجات کی افزودگی کو روکنے اور اپنے ذخیرے کے کچھ حصے کو غیر موثر کرنے کا وعدہ کیا ہے۔ ایران سینٹری فیوجز کی اگلی قسم نہیں استعمال کر سکتا جو یورینیم کی افزودگی کے لئے استعمال ہوتی ہیں۔ ایران نئی سینٹری فیوجز نہ نصب اور نہ شروع کرسکتا ہے۔ اس کی نئی سینٹری فیوجز کی بنانے کی صلاحیت بھی محدود ہو گی۔ ایران اپنے پلوٹونیم کے ری ایکٹر پر بھی کام بند کردے گا۔ نئے معائنوں سے ایران کی جوہری تنصیبات تک وسیع پیمانے پر رسائی حاصل ہوگی اور عالمی برادری کو موقع ملے گا کہ وہ یہ تصدیق کر سکے کہ آیا ایران اپنے وعدوں کی پاسداری کر رہا ہے یا نہیں۔
یہ اہم قدغنیں ہیں جو ایران کو جوہری ہتھیار بنانے سے باز رکھنے میں مدد کریں گیں۔ المختصر ان سے ایران کے بمب بنانے کے ممکنہ ترین راستے مسدود ہو جاتے ہیں۔ جب کہ ایرانی پروگرام کے بارے میں ہمارے جامع خدشات کو مکمل طور پر دور کرنے کے لئے، یہ پہلا قدم اگلے چھ ماہ میں مزید مذاکرات کے لئے وقت اور گنجائش پیدا کرے گا۔ اس معائدے کی وجہ سے ایران مذاکرات کی آڑ میں اپنے پروگرام کو آگے نہیں بڑھاسکتا۔
اس جانب سے اپنی شدید ترین پابندیوں کے اطلاق کو جاری رکھتے ہوئے، امریکہ اور اس کے دوست اور اتحادی، ایران کو مناسب سہولت دینے پر رضامند ہو گئے ہیں۔ ہم نئی پابندیاں لگانے سے احتراز کریں گے۔ ہم ایرانی حکومت کو اس آمدنی کے کچھ حصے تک رسائی کی اجازت دیں گے جس کا پابندیوں کی وجہ سے انکار کیا جاتا رہا ہے۔ تاہم پابندیوں کا وسیع تر ڈھانچہ اپنی جگہ قائم رہے گا اور ہم اس کا شدت سے نفاذ جاری رکھیں گے۔ اس چھ مہینے کی مدت میں اگر ایران اپنے وعدوں پر پورا نہیں اترتا تو ہم یہ سہولت بند کردیں گے اور دباو¿ بڑھائیں گے۔
اگلے چھ ماہ کے دوران ہم ایک جامع حل کے لئے مذاکرات پر کام کریں گے۔ ان مذاکرات پر ہم ایک بنیادی فہم کے ساتھ کام کر رہے ہیں۔ کسی بھی دوسری قوم کی طرح ایران کو پرامن جوہری توانائی تک رسائی ملنی چاہیے۔ اپنے فرائض کی خلاف ورزیوں کے ریکارڈ کی بناءپر، ایران کو اپنے جوہری پروگرام پر ایسی سخت قدغنیں ہر صورت قبول کرنی چاہئیںجو جوہری ہتھیاروں کی تیاری کو ناممکن بناتی ہوں۔
ان مذاکرات میں کسی چیز پر اتفاق نہیں ہوگا جب تک تمام چیزوں پر اتفاق نہ ہو جائے۔ یہ ایران کی ذمہ داری ہے کہ وہ دنیا پر ثابت کرے کہ اس کا جوہری پروگرام کلیتا پرامن مقاصد کے لئے ہو گا۔
اگر ایران اس موقع سے فائدہ اٹھاتاہے تو بین الاقوامی برادری میں دوبارہ شامل ہونے سے ایرانی عوام کو فائدہ ہوگا اور ہم اپنی دونوں اقوام کے درمیان بے اعتباری میں رفتہ رفتہ کمی لاسکتے ہیں۔ اس سے ایران کو باہمی عزت کی بنیاد پر وسیع تر دنیا میں آہستہ آہستہ آگے بڑھے کے آغاز کی باوقار راہ میسر آئے گی۔ اس کے بر عکس اگر ایران انکار کرتا ہے تو اسے بڑھتے ہوئے دباو¿ اور تنہائی کا سامنا ہوگا۔
گزشتہ چند سالوں میں ایرانی حکومت پر پابندیاں لگانے میں کانگرس ایک بنیادی ساتھی کے طور پر کام کرتی رہی ہے اور اس دو فریقی کاوش کی وجہ سے آج حاصل ہونے والی پیشرفت ممکن ہوسکی ہے۔ آگے بڑہتے ہوئے ہم کانگرس کے ساتھ قریبی طور پر کام کرنا جاری رکھیں گے۔ تاہم نئی پابندیوں کے سلسلے میں آگے بڑھنے کا یہ وقت نہیں ہے۔ کیونکہ اس طرح کرنے سے یہ پہلا امید افزاءقدم ناکام ہوجائےگا، ہم اپنے اتحادیوں سے دور ہوجائیںگے اور خطرہ ہے کہ ہمارا وہ اتحاد بکھر جائےگا جس کی وجہ سے ہم ابتدائ ابتدامیں پابندیاں نافذ کرنے کے قابل ہوئے۔
آج اس بین الاقوامی اتحاد کا مظاہرہ ہورہا ہے۔ ایران کو جوہری ہتھیار بنانے سے روکنے کے ہمارے عزم مصمم کی حمایت میں دنیا متحدد ہے۔ ایران کو یہ جان لینا چاہئے کہ جوہری ہتھیاروں کے حصول سے سلامتی اور خوشحالی کبھی نہیں حاصل ہوتی۔ ان تک پوری طرح تصدیق کیے جانے والے ایسے معاہدوں کے ذریعے پہنچا جا سکتا ہے جو ایران کے جوہری ہتھیاروں کے حصول کو ناممکن بنا تے ہوں۔
جیسے ہم آگے بڑھیں گے،امریکہ کا مصمم ارادہ برقرار رہےگا۔ اسی طرح ہمارے ان دوستوں اور اتحادیوں بالخصوص اسرائیل اور خلیج میں ہمارے شریک کاروں کے ساتھ کیے گئے وعدے بھی نبھائے جائیں گے جو ایران کے ارادوں کے بارے میں معقول وجہ کی بناءپر شبہات رکھتے ہیں۔
بالاخرایران کے جوہری پروگرام کی وجہ سے پیدا ہونے والی مشکل کا پائیدار حل صرف سفارت کاری سے ہی ڈھونڈا جا سکتا ہے۔ بحیثیت صدر اور کمانڈر ان چیف، ایران کے جوہری پروگرام کو روکنے کے لئے جو کچھ ضروری ہوا میں کروں گا۔ لیکن میری یہ بہت بڑی ذمہ داری ہے کہ لڑائی کے لئے جلد بازی سے کام لینے کی بجائے ہم اپنے اختلافات پرامن طریقے سے حل کریں۔ آج جامع اور پرامن حل کا ایک حقیقی موقع ہے۔ میرا یقین ہے کہ اسے آزمانا چاہئے۔
آج ہم نے جو پہلا قدم اٹھایا ہے یہ میرے عہدہ سنبھالنے کے بعد ایران کے حوالے سے پہلی اہم اور ٹھوس پیش رفت ہے۔ اور اب آئندہ آنے والے مہینوں میں ہمیں ایسا پائدار اور جامع حل تلاش کرنا چاہئے جو ایک ایسے جھگڑے کو طے کرے گا جس کی وجہ سے ہماری اور ہمارے اتحادیوں کی سلامتی کئی عشروں سے خطرے سے دوچار ہے۔ یہ آسان نہیں ہوگا اور آگے بہت بڑی مشکلات درپیش ہیں۔ مگر ایک مضبوط اور اصولوں پر مبنی سفارت کاری کے ذریعے ریاستہائے متحدہ امریکہ قوموں کے مابین وسیع تر امن، سلامتی، اور تعاون کے لئے دنیا کی خاطراپناکردار ادا کرے گا۔
آپ کا بہت شکریہ۔