واشنگٹن ، 11 نومبر:ایران کے نیوکلیائی پروگرام کے مسئلے پر ایک طرف جہاں مذاکرات کے ذریعے اسکا حل نکالنے کی کوشش کی جارہی ہے، وہیں امریکہ پر ملک کے باہر اور اندر سے ایران کے خلاف پابندیاں مزید سخت کرنے کا دباو بڑھ رہا ہے۔
اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے پانچ مستقل اراکین اور جرمنی کے ساتھ جنیوا میں سنیچر کو ختم ہونے والی بے نتیجہ میٹنگ کے باوجود دونوں فریقوں نے مثبت پیش رفت کا اشارہ دیتے ہوئے جہاں 20 نومبر سے ایک بار پھر مذاکرات شروع کرنے کی بات کہی ہے، وہیں اسرائیل ایران کے خلاف پابندی بڑھانے کے لئے امریکہ پر دباو ڈال رہا ہے۔
اسرائیل کے وزیراعظم بنجامن نتن یاہو نے کل کہا کہ اچھا ہوا کہ ایران کے ساتھ کوئی سمجھوتہ نہیں ہوا۔مسٹر نتن یاہو نے کہا کہ انہوں نے ایران کے خلاف زبردست لام بندی کی ہے ۔ لیکن انہوں نے کہا کہ انہیں اب ایسا لگتا ہے کہ مغربی ممالک ایران کے ساتھ سمجھوتہ کرنے کے لئے بے قرار ہیں۔انہوں نے ایک امریکی ٹیلی ویژن چینل پر کہا کہ اسرائیل اس “خراب سمجھوتے” کو روکنے کی بھرپور کوشش کرے گا۔
سلامتی کونسل میں ویٹو اختیار والا فرانس بھی اس بات پر بضد ہے کہ جب تک ایران اپنے نیوکلیائی پروگراموں کو پوری طرح ترک کرنے کے لئے تیار نہیں ہوجاتا تب تک ا س کے خلاف پابندیوں میں کسی طرح کی کوئی نرمی نہیں کی جانی چاہئے۔
فرانس کا ہمیشہ سے یہ موقف رہا ہے کہ ایران کے خلاف پابندی میں اسی وقت نرمی کی جانی چاہئے جب ایران اپنے آبی ری ایکٹر کی تعمیر روک دیاور 20 فی صد یورینیم کی افزودگی کو بند کردے۔ وہ اب بھی اپنے اس موقف پر قائم ہے۔
امریکی ممبران پارلیمنٹ بھی پابندی بڑھانے کے سلسلے میں صدر بارک اوبامہ پر دباو ڈال رہے ہیں ۔ سینٹ کی خارجہ امور سے متعلق کمیٹی نے یہ اشارہ دیا ہے کہ وہ آئندہ ہفتہ ایک بل لانے کے موڈ میں ہے جس میں ایران کے خلاف پابندیاں مزید سخت کرکے اس کے تیل ایکسپورٹ کو نصف کرنے کی تجویز ہے۔کمیٹی کے ڈیموکریٹک سربراہ باب مینڈیز نے کہا کہ وہ ایران کے خلاف دباو برقرار رکھنا چاہتے ہیں۔
دریں اثناء امریکی وزیر خارجہ جان کیری نے وضاحت کی ہے کہ امریکہ “اندھا”یا “بے وقوف”نہیں ہے اور ایران کے خلاف پابندیوں میں اسی وقت ڈھیل دی جائے گی جب وہ پوری طرح مطمئن ہوجائے گا۔
ایران کے ساتھ جنیوا میں جاری نیوکلیائی مذاکرات میں جمعہ کو اچانک پہنچنے والے مسٹر کیری نے کہا “ہمیں یہ بخوبی جانتے ہیں کہ یہ کیسے طے کیا جائے کہ ہم ملک اور دنیا کے مفادات میں کام کررہے ہیں یا نہیں۔ہم اندھے نہیں ہیں اور نہ ہی ہم بے وقوف ہیں”۔
پابندیوں کی وجہ سے کافی اقتصادی نقصان کا سامنا کرنے والے ایران تقریباً ایک دہائی سے جاری نیوکلیائی تنازع کو حل کرنے کا خواہش مند نظر آرہا ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ وہ کس حد تک مغربی ممالک کی بات ماننے کے لئے راضی ہوتا ہے۔ان کا الزام ہے کہ ایران نیوکلیائی بم بنانے کے کافی قریب ہے جبکہ ایران کا کہنا ہے کہ اس کا نیوکلیائی پروگرام پرامن مقاصد کے لئے ہے۔