نیویارک۔امریکی صدر براک اوباما نے ایران کی مصالحانہ پیش کش کا خیرمقدم کیا ہے اور کہا ہے کہ اس کے ساتھ سفارت کاری کے راستے کو آزمایا جانا چاہیے۔ ان کا کہنا ہے کہ انھیں ایرانی صدر حسن روحانی کے اعتدال پسندانہ نقطہ نظر سے حوصلہ ملا ہے۔
وہ منگل کو نیویارک میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے سالانہ اجلاس سے خطاب کررہے تھے۔انھوں نے کہا کہ حسن روحانی کے مصالحانہ الفاظ کو اقدامات کے ذریعے عملی جامہ پہنایا جائے اور یہ اقدامات شفاف اور قابل تصدیق ہونے چاہئیں۔
انھوں نے کہا کہ وہ ایران کے ساتھ باہمی احترام پر مبنی نئے تعلقات کا آغاز چاہتے ہیں۔ تاہم انھوں نے امریکا کے اس عزم کا اعادہ کیا کہ ایران کو جوہری ہتھیار بنانے کی اجازت نہیں دی جائے گی اور دنیا کو یہ اعتماد دلانے کی ضرورت ہے کہ ایران کا جوہری پروگرام پرامن مقاصد کے لیے ہے۔
صدراوباما کی جنرل اسمبلی میں اس تقریر سے چندے قبل امریکی نیوز چینل این بی سی کے ساتھ انٹرویو میں صدر حسن روحانی نے کہا کہ ”ایران جوہری ہتھیاروں کی تیاری کے لیے پیش رفت نہیں کرے گا”۔ان کا کہنا ہے کہ ایران کا جوہری پروگرام پُرامن مقاصد کے لیے ہے۔
امریکی صدر کی آج جنرل اسمبلی کے اجلاس کے موقع پر ایرانی ہم منصب سے ون آن ون ملاقات بھی متوقع ہے۔اگر ایسا ہوجاتا ہے تو امریکی اور ایرانی صدور کے درمیان گذشتہ تیس سال میں یہ پہلی ملاقات ہوگی۔البتہ ان کے درمیان پہلے سے کوئی ملاقات طے نہیں ہے۔
حسن روحانی نے صدارت کا منصب سنبھالنے کے بعد مغربی طاقتوں کے ساتھ جوہری پروگرام کے تنازعے پر کھلے مذاکرات کا عندیہ دیا تھا اور ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ علی خامنہ ای نے بھی انھیں امریکا کے ساتھ براہ راست مذاکرات کی بحالی کے لیے گرین سگنل دے دیا ہے۔
وائٹ ہاؤس کے ترجمان نے گذشتہ جمعہ کو ایک بیان میں کہا تھا کہ امریکا ایران کے ساتھ اس کے جوہری پروگرام کے تنازعے پر باہمی احترام کی بنیاد پر مذاکرات کے لیے تیارہے لیکن ایران کو یہ واضح کرنا چاہیے کہ اس کا جوہری پروگرام پرامن مقاصد کے لیے ہے۔
اس دوران ایرانی وزارت خارجہ نے ایک بیان میں کہا ہے کہ اسی ہفتے اقوام متحدہ میں سرکردہ ایرانی سفارت کاروں اورامریکی سفارت کاروں کے درمیان ملاقات ایک نئے دور کا آغاز ہوگی اور اس سے ایران کے جوہری پروگرام کے مغرب کے ساتھ جاری تنازعے کے خاتمے میں مدد ملے گی۔
یورپی یونین کی جانب سے سوموار کو جاری کردہ ایک بیان کے مطابق ایرانی وزیرخارجہ جواد ظریف نیویارک میں سلامتی کونسل کے پانچ مستقل رکن ممالک امریکا، برطانیہ ،فرانس ،چین اور روس اور جرمنی کے نمائندوں سے اپنے ملک کے جوہری پروگرام کے بارے میں تبادلہ خیال کریں گے۔