لکھنؤ۔ وقت کی تبدیلی کے ساتھ ساتھ بہت سی چیزیں بدل جاتی ہیں یہاںتک کہ جب قدریں بدل جاتی ہیں تو پھر اظہار کے طریقے کیسے نہ بدلیں۔ یہی وجہ ہے کہ جدید ٹکنالوجی کے دور میں نئے سال کے موقع پر دکھائی دینے والی گریٹنگ کارڈس نے بھی اپنی اہمیت کھو دی ہے۔ نئے سال کی آمد آمد ہے اس کے باوجود شہر میں گریٹنگ کارڈس کی دکانیں سجی ہوئی نہیں دکھائی دے رہی ہیں ورنہ ابھی چند برس قبل ہی دسمبر شروع ہوتے ہی گریٹنگ کارڈس دکانوں کو سجایا کرتے تھے اور لوگ جوق در جوق ان کی خریداری کرتے تھے جس میں بوڑھے، بچے اور نوجوان سب شامل ہوتے تھے۔ ان کارڈوں کی خریداری نئے سال کے موقع پر مبارک باد دینے کیلئے کی جاتی تھی مگر ایس ایم ایس نے ان کارڈوں کی اہمیت کو کم کر دیاہے۔ اب ایک ایس ایم ایس دس پیسے سے بھی کم میں پڑتا ہے جبکہ عام کارڈ کی قیمت پانچ سے دس روپئے اور اچھے کارڈ اس سے بھی زیادہ مہنگے ہوتے ہیں۔ ایسے میں لوگ مہنگے کارڈ خریدنے کے بجائے ایس ایم ایس سے مبارک باد دینے کو زیادہ آسان اور کم خرچیلا سمجھتے ہیں۔ ٹکنالوجی کے انقلاب نے زندگی کے ہر شعبہ حیا ت کو متاثر کیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ایک طرف جہاں ایس ایم ایس کے ذریعہ روپئے کی بچت ہوتی ہے وہیں دوسری طرف وقت بھی بچتا ہے ورنہ کارڈ کی خریداری سے لیکر لکھنے ،سجانے، سنوارنے اور پہنچانے تک میں کافی وقت خرچ ہو جاتا تھا۔اس کے مقابلے ایس ایم ایس کرنا بہت آسان ہے۔ گروپ میسیج کر کے ایک ساتھ کئی لوگوں کو چشم زدن میں مبارک باد دی جا سکتی ہے اور لوگ یہی کر رہے ہیں۔ بازاروں میں کہیںکہیں اگر دکانیں دکھائی بھی دیتی ہیں تو دکانداروںکا کہنا ہے کہ اب اِدھر دو چار برسوں سے لوگ کارڈوں کی خریداری کیلئے نہیں آتے اسی لئے وہ محدود کارڈ رکھتے ہیں۔ دکانداروں کا کہنا ہے کہ آج کل صرف ’فرینڈ شپ ‘کارڈ ہی فروخت ہوتے ہیں اس لئے دکانوں پروہی رکھے جاتے ہیں۔ لوگوں کی عدم توجہی کی وجہ سے ان دکانداروں کو کافی نقصان ہواہے۔ ان کو سال نو کی آمد کا انتظار رہتا تھا کیونکہ ایسے موقع پر یہ کارڈ فروخت کر کے اچھی خاصی کمائی کر لیتے تھے مگر موبائل کے انقلاب نے نہ صرف ان کی کمائی کم کر دی بلکہ ان کے سال نو پر ہونے والی خوشیوں پر بھی پانی پھیر دیا۔ دوسری طرف موبائل کمپنیوں کی چاندی ہو گئی اور وہ ایسے مواقع سے خوب خوب فائدہ اٹھاتے ہیں۔ ہوتا تو یہاں تک ہے کہ خاص مواقع پر وہ پہلے سے استعمال میں آنے والے ایس ایم ایس کارڈ کو بھی منسوخ قرار دے دیتے ہیں اور ایسے موقع پر مہنگی شرح نافذ کر کے اپنے بینک بیلنس میں اضافہ کرلیتے ہیں مگر عوام کی تناسانی اور رقم و پیسے کی بچت کی لالچ اس کو بوجھ نہیں بننے دیتی اور وہ اس کو بھی آسان اور کم قیمت والا سمجھتے ہیں۔ ویسے اگر دیکھا جائے تو یہی درست بھی ہے کیونکہ ایک طرف جہاں موبائل کے ذریعہ مبارک باد دینے میں رقم کی بچت ہوتی ہے وہیں وقت بھی بچتا ہے۔ اب بھلا کوئی کون دشوار کن مرحلہ اختیار کرے گا لیکن یہ بات تو ضرور ہے کہ ان گریٹنگ کارڈس کے خاتمہ کی وجہ سے جذبات میں بھی سردی دیکھی جا رہی ہے ورنہ مہینوں پہلے سے منصوبے بنائے جاتے تھے اور تیاریاں کی جاتی تھیں پھر سال نو کے موقع پر ان کو عملی جامہ پہناکر اپنے قریبی شخص کو مبارک باد دی جاتی تھی۔