کراچی کے ایک مشہور اخبار ڈان نے اپنی ایک رپورٹ میں لکھا ہے کہ “جب بھی ہولناک واقعات یا تباہی کا سلسلہ رونما ہوتا ہے، یہاں روایت ہے کہ اُسے مکمل طور پر غیر متوقع قرار دے دیتے ہیں لیکن اب پہلے کی طرح، زیادہ کثرت سے ایسا نہیں کرسکتے، یہاں خبرداری کے تمام تر اشارے ساتھ ساتھ ہیں کہ اگر نظر انداز کیا تو پھر اپنی خود کی قیمت پر ہی ایسا کرنا ہوگا۔
نیویارک ٹائمز کی خبرکے مطابق امریکی حکومت کو یقین ہے کہ شام میں بشارالاسد حکومت کے خلاف برسرِ پیکار باغیوں میں شامل ہو کر لڑنے کی خاطر، متعدد سرکردہ القاعدہ شخصیات پاک ۔ افغان سرحدی علاقوں کو چھوڑ کر جا چکے۔ اگرچہ متعدد تفصیلات موجود ہیں لیکن بذاتِ خود یہ دعویٰ نیا یا حیران کُن نہیں۔
بیان کردہ تفصیلات میں سے کم از کم ایک کو پالیسی سازوں کے لیے الارم کی مانند ہوناچاہیے، ویسے بھی نیویارک ٹائمز نے اس حقیقت کو بطور حوالہ بیان کیا ہے۔ سوالیہ فقرہ ہے: ‘ایمن الزواہری سمیت القاعدہ کی سینئر قیادت پاکستان میں ہے۔’
ایک مرتبہ کا ذکر ہے کہ جب امریکا یہ دعوے کیا کرتا تھا کہ اُسامہ بِن لادن پاکستان میں روپوش ہے، تو پاکستان ہنسی اڑاتے ہوئے اسے مسترد کرڈالتا۔ پھر یہ ہوا کہ بِن لادن نہایت عیش و آرام سے برسوں تک، اسی ملک میں زندگی بسر کرتے ہوئے پائے گئے اور آخر میں پاکستان کے حصے میں آئی صرف شرمندگی۔
مسئلہ یہ ہے کہ اس شرمناک المیے سے بظاہر کوئی سبق نہیں سیکھا گیا۔ اگر ایمن الزواہری پاکستان میں ہے تو امریکا کے ہاتھوں اس کی گرفتاری کی خاطر، تلاش میں مدد دینے کے واسطے یہاں کے حکام کیا کچھ کررہے ہیں؟
اگر وہ اس کے مقام کا درست ترین پتا چلالے اور اس بات پر غیر یقینی کا شکار ہو کہ آیا اسے تحفظ فراہم کرنے میں ریاستی عناصرشامل ہیں یا نہیں، تب بھی خیال ہے کہ امریکی، الزواہری کو نکال لے جانے کے لیے بِن لادن طرز کے ایک اور یک طرفہ آپریشن پر ہچکچائیں گے؟ اور پھر بھی، اس طرح ہوگیا تو نتائج کیا ہوں گے؟
لگتا ہے کہ سن دو ہزار گیارہ میں پاکستان کو شک کا فائدہ دے دیا گیا تھا لیکن اب افغانستان سے غیر ملکی افواج کا انخلا یقینی ہے اور ایسے میں شک کے اس فائدے کو سن دو ہزار چودہ تک توسیع دینا اتنا بھی آسان نہیں۔
پاکستان کے اندر امریکا مخالف جذبات کی بُلند ہوتی لہروں اور خاص طور پر گذشتہ برس کے دوران عسکریت پسندی کے تمام حصوں کو دی گئی گنجائش کے بعد، ایسا کرنا اور بھی مشکل ہوسکتا ہے۔
القاعدہ، پاکستان کے لیے کبھی بھی ایک اتحادی، دوست، حتیٰ کہ قابلِ برداشت غیر ریاستی عنصر بھی نہیں رہا۔ یہ خود پاکستان کے اپنے مفاد میں ہے کہ وہ اس گروپ، خاص طور پر پاکستانی سرزمین پر موجود اس کی قیادت، کا صفایا کردے۔
اگر پاکستان کم از کم یہ چاہتا ہے کہ عالمی سطح پر اسے ذمہ دار ریاست تصور کیا جائے تو پھر نااہلی یا ملی بھگت، جیسا کہ بِن لادن کے واقعے میں تھا، اب یہ سادہ آپشن مزید باقی نہیں بچا۔