نریندر مودی اور نواز شریف اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی کے سالانہ اجلاس میں شرکت کے لیے نیویارک جا رہے ہیں
رشتے ہی رشتے، ایک بار مل تو لیں، پھر ملیں گے یا شاید نہیں بھی۔
شمالی ہندوستان میں اگر آپ ٹرین یا کار سے سفر کریں تو اب بھی کہیں نہ کہیں دیواروں پر ایک اشتہار ضرور نظر آجائے گا: رشتے ہی رشتے، ایک بار مل تو لیں!
پچیس تیس سال پہلے اشتہاروں کا یہ ختم نہ ہونے والا سلسلہ دہلی کے ایک پروفیسر نے شروع کیا تھا، وہ رشتوں کا کاروبار کرتے تھے۔
یہ تو معلوم نہیں کہ ان کی کروائی ہوئی شادیاں کتنے دن چلتی تھیں لیکن ڈیجیٹل میڈیا کے دور سے پہلے ان کا یہ اصرار عام بول چال کا حصہ بن گئی تھا۔
وزیر اعظم نریندر مودی اب امریکہ کے سفر کی تیاری میں ہیں جہاں وہ ان سب سے ملیں گے جن سے انہیں ملنا چاہیے، بس وزیر اعظم نواز شریف سے ملاقات اب بھی مشکوک ہے، بظاہر صرف اس وجہ سے کہ ملاقات کی تجویز پہلے کون پیش کرے۔
سفارت کاری کی باریکیاں تو سفارت کار ہی جانیں لیکن اگر بات صرف اس ضد پر اٹکی ہوئی ہے تو پروفیسر صاحب کی قائم کردہ ایجنسی کی خدمات حاصل کرنے میں کیا برائی ہے؟ وہ خود تو حیات نہیں ہیں لیکن رشتوں کا یہ کاروبار اب ان کی بھتیجی نے سنبھال رکھا ہے، ایک بار مل تو لیں!
ہندو اور مسلم رہنماؤں کے رشتے میں بھی تلخی بڑھتی جا رہی ہے
پروفیسر صاحب کی بھتیجی سے ملنے کی ضرورت ہندو اور مسلم رہنماؤں کو بھی ہے۔ اس رشتے میں بھی تلخی بڑھتی جا رہی ہے۔
اب بی جے پی سے وابستہ طلبہ کی تنظیم اکھل بارتھیہ ودیارتھی پریشد نے’لوو جہاد‘ کے خلاف سکول کالجوں میں بیداری کی مہم شروع کرنے کا اعلان کیا ہے۔
تنظیم کی ایک اہلکار کے مطابق ’مسلمان نوجوان ہندو لڑکیوں کو پھنسانے کے لیے سکولوں کے باہر کھڑے ہوتے ہیں۔۔۔ہم محبت کے دشمن نہیں ہیں، لیکن (لو جہاد کے) اس خطرناک رحجان کو روکنے کے لیے بیداری پیدا کرنے کی ضرورت ہے۔‘
آپ کوشش ضرور کیجیے لیکن جن لوگوں کو خود محبت کا تجربہ ہے ان سے ایک مرتبہ بات ضرور کر لیجیے، سنا ہے کہ محبت کرنے سے پہلے شناختی کارڈ نہیں دیکھے جاتے۔
لیکن کوئی تنظیم بیداری پیدا کرنا چاہے تو اسے کون روک سکتا ہے؟
بی جے پی کی نظریاتی سرپرست تنظیم آر ایس ایس کو ہی لیجیے۔ تنظیم کے تین سرکردہ رہنماؤں کا کہنا ہے کہ ہندو مذہب میں ’نچلی اور اچھوت‘ ذاتوں کا کوئی تصور نہیں تھا اور یہ سلسلہ مسلمان حملہ آوروں کی آمد کے بعد شروع ہوا تھا!
بی جے پی کو ضمنی انتخابات میں شکست کے بعد لو جہاد جیسے معاملے ترک کر کے ترقی اور خوشحالی پر توجہ دینے کو کہا جا رہا ہے
اس دعوے میں کتنی سچائی ہے یہ تو مورخین ہی طے کریں گے لیکن اگر یہ سچ بھی ہے تو پرانے رشتوں کو بحال کرنے اور ان بے چاروں کو ان کا کھویا ہوا وقار واپس کرنے میں اب کیا رکاوٹ ہے؟
اگر انتظار صرف یہ ہے کہ پہل کون کرے تو آپ کو معلوم ہی ہے کہ کس سے رابطہ کرنا ہے۔ ایک بار مل تو لیں!
بہر حال، بات شاید گھوم پھر کر سیاست پر ہی لوٹ آتی ہے۔
گزشتہ ہفتے اتر پردیش کے 11 اسمبلی حلقوں کے ضمنی انتخابات میں سے آٹھ میں بی جے پی کو شکست کا سامنا ہوا جس کے بعد سے اخبارات پارٹی کے لیے مشوروں سے بھرے پڑے ہیں اور مرکزی خیال یہ ہے کہ لو جہاد کا ذکر چھوڑو اور ترقی اور خوشحالی کی بات کرو جس کے لیے عوام نے پارٹی کو تاریخی مینڈیٹ دیا تھا۔
ملنا نہیں چاہتے تو کوئی بات نہیں لیکن ایک بار پڑھ تو لیں!