آزادی کے بعد اس ملک میں مسلمانوں کا سچ کیا ہے؟ سن ۴۷، بارودی ڈھیر پر ایک خوفناک آزادی ہمارا انتظار کرر ہی تھی۔ جنہیں یہاں تحفظ نظر نہیں آیا۔ وہ پاکستان چلے گئے— یہ مت بھولیے کہ پاکستان بننے کے پیچھے بھی شیخ عبد اللہ یا جناح جیسے قد آور رہنماؤں کی ایک منطق رہی تھی کہ جو قوم ان کے ہاتھ سے ایک گلاس پانی نہیں پی سکتی، کیا وہ موجودہ حالت میں انہیں ان کا رتبہ دے سکتی ہے؟ اگرچہ اس دلیل کو کاٹنے کی صلاحیت ہے ہم میں، کہ دو بھائیوں کی طرح ہم آزاد ہندستان میں پلے، بڑھے لیکن فرقہ واریت ہمیںقدم قدم پر زخمی کرتی رہی۔ آزادی کے بعد کے ہندوستان میں مسلمانوں کا وہ سہما ہوا چہرہ بھی دیکھ لیجئے، جہاں ہر چھوٹی سے چھوٹی اور بڑی سے بڑی کارروائی کے لیے ایک ساتھ ۳۰ کروڑ کی آبادی نشانے پر آ جاتی ہے۔مظفرنگر، شاملی، بہار شریف، بھاگلپور ، جمشید پور، ملیانا میں ہونے والے فرقہ وارانہ فسادات سے الگ کی بھی ایک کہانی ہے جو مجھے چونکاتی ہے۔
گاندھی جی کا قتل ہوتا ہے— مسلمان اپنے اپنے گھروں میں بند ہوجاتے ہیں۔ (کیوں کیسا خوف ہے یہ؟۔ اگر کسی مسلمان نے قتل کیا ہے تو؟)
برسوں بعد اندرا گاندھی کا قتل ہوتا ہے۔ مسلمان ایک بار پھر اپنے اپنے گھروں میں بند —(کیوں؟)
راجیو گاندھی کا قتل ہوتا ہے، جب تک قاتلوں کی خبر نہیں آ جاتی، پورا مسلم معاشرہ دہشت اور خوف کے خیمے میں رہتا ہے کہ اب فسادشروع… (کیوں—؟)
ایک وقت ایسا لگ رہا تھا کہ ایودھیا تنازعہ یا ہندوتو کا ’ایشو‘ سیاسی گلیارے میں ہلچل پیدا کرنے میں ناکام ہیں۔ لیکن بعد کی واردات نے بتا دیا کہ ایسا سوچنے والے غلط تھے۔ در اصل ہندوستانی تہذیب کی جڑیں، گہری ہونے کے باوجودسیاست اور سیاسی گلیارے تک ہمیں حاشیے پر پھینکنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی گئی۔اور یہ بھی کھلا سچ ہے کہ نئے ہزارہ یا نئی صدی میں قدم رکھنے تک اسی مذہب کی آڑ لے کر ایک بار پھر سے مسلمانوں کو دہشت گرد قرارد ینے کی کارروائی اپنے آخری مرحلوں میں پہنچ چکی ہے۔ شاید چہرے بدل بدل کر آزاد ہندوستان میں ایک ہی پارٹی اس ملک میں حکومت کرتی رہی ہے— اور وہ ہے ’ہندوتو‘— کانگریس کا نرم ہندوتو اور بھاجپا کا گرم ہندوتو— مگر بھاجپا کے مقابلے کانگریس کا نرم ہندوتو خطرناک ہے۔ ووٹ بینک یا ووٹ کی سیاست میں در اصل کانگریس دونوں ہاتھوں سے لڈو کھانے کی کوشش کرتی ہے۔ وہ ہندوئوں کو بھی خوش رکھنا چاہتی ہے اس لیے ’سنگھ‘ اور پرگیہ معاملے میں اس کی چپّی خطرناک حد تک ملک کے لیے انتہاپسند لگتی ہے۔ وہیں وہ مسلمانوں کے ووٹ بینک پر قبضہ کرنے کے لیے اپنے چھٹ بھیے نیتاؤں کے سہارے مسلمانوں کے زخموں پر مرہم لگانا چاہتی ہے۔
مودی کے سپہ سالار بنجارا اور اس کے انکاؤنٹرز کو لوگ بھولے نہیں ہیں— گجرات سے ممبئی تک میڈیا، انکاؤنٹرز کی خبروں کو ایسے اچھالتی تھی جیسے دیش کا ہرایک مسلمان دہشت گرد ہے— کیونکہ بار بار دہشت گردی کی ہر کارروائی میں نشانہ کسی ایک عاطف یاساجد پر نہیں ہوتا تھا، بلکہ میڈیا کے شور وغل میں ملک کے سارے مسلم نوجوان نشانے پر ہوتے تھے۔ ہر بار دہشت گرد کی جیب میں اردو میں لکھی ایک پرچی ہوتی تھی۔ (آج کی نوجوان مسلم نسل اردو نہیں جانتی)— ہر بار کرتا، پاجامہ پہننے والا شخص، چشم دید گواہوں کے نشانے پر ہوتا تھا۔ (تاکہ جائے واردات پر وہ اپنے لباس کے ذریعہ آسانی سے پہچان لیا جائے)— کیا آج کے مسلم نوجوان کرتا پائجامہ پہنتے ہیں—؟ کیا جینس کی پینٹ اور ٹی شرٹ پہنے ہوا شخص مسلمان نہیں ہو سکتا—؟ اس کا جواب ہے، ہو سکتا ہے، لیکن پولیس انتظامیہ اور حکومت کی نظر میں جینس اور پینٹ شرٹ پہننے والا شخص ملک کے تمام مسلمانوں کی نمائندگی نہیں کرسکتا۔ میڈیا کو ایک فیکس یا میل حاصل ہو جاتا ہے— ہربار کسی انڈین مجاہدین کی جانب سے یہ اعتراف نامہ بھی آ جاتا ہے کہ بھیا، یہ تو ہم نے کیا ہے۔ کیا کبھی حکومت نے ان فرضی فیکس یا میل کی تحقیق کرنے یا جانچنے کی کوشش کی؟ ان باتوں کا ذکر اس لیے ضروری ہے کہ ایسی ہر کارروائی ہندوستان میں پیدا ہونے والے ایک ایک مسلمان کے رنج و غم کا سبب بن جاتی ہے۔
جامعہ یا بٹلہ ہاؤس میں بھی جو کچھ ہوا، وہ اچھا نہیں ہوا۔ رمضان کے مہینے میںہونے والی اس واردات نے علاقے کے تمام مسلمانوں کو جیسے کسی لاش میں تبدیل کر دیا تھا۔ پولیس کسی بھی وقت کسی کے بھی گھر دھمک جاتی تھی۔ یہ کہنے پر کہ بھائی، ہم تو پڑے لکھے لوگ ہیں۔ پولیس کا جواب ہوتا تھا ’تم جیسے پڑھے لکھے لوگ ہی یہ کارروائی کرتے ہو۔‘‘ مالیگاؤں سے لے کر اعظم گڑھ تک کے تار دہشت گردوں سے جوڑ دیئے جاتے تھے۔ سب سے زیادہ نوجوان پریشان تھے۔ وہ گھر سے باہر نکل ہی نہیں سکتے تھے۔ یہ دہشت اور خوف کہ پولیس کی آنکھیں کب ان کا شکار کر لیں، کہا نہیں جاسکتا۔ اسی ماحول میں عید جیسا دن بھی آیا۔ عید جسے خوشی کا دن کہتے ہیں۔ لیکن مسجدیں سنسان رہیں— ایک اطلاع کے مطابق کئی مسلم نوجوان اس دن مارے ڈر کے مسجد نہیں گئے۔شاید یہ بھیانک بات آپ کو معلوم ہو کہ آج بھی دلی سے ممبئی تک کسی بھی مسلمان کا اپنے لیے کرائے کا مکان تلاش کرنا ایک بے حد مشکل کام ہوتا ہے۔ عام طور پر مکان مالک کرایہ دار مسلمانوں کو اپنا گھر نہیں دینا چاہتے— جاوید اختر جیسے لوگوں کو بھی ممبئی میں اپنا گھر خریدنے پر خبر بننا پڑتا ہے— بھلے ہی ان باتوں کو فرقہ واریت سے جوڑا جائے لیکن یہی سچ ہے۔ مسلمانوں کے لیے رہائشی مکانوں کی تلاش اور بھی مشکل کام ہوگیا ہے۔
کیا ممبئی کے سینکڑوں انکاؤنٹرز فرضی نہیں پائے گئے؟ جس کے بارے میں میڈیا چیخ چیخ کر عام دنوں میں مسلمانوں کے لیے نفرت اور زہر بھرا کرتی تھی؟آج بھی مہاراشٹر اے ٹی اس پر مسلمانوں کو ہراساں کرنے کے نام پر سوالیہ نشان اٹھ رہے ہیں۔
کیا گجرات میں بنجارہ کے ذریعہ ہونے والے انکاؤنٹرزفرضی نہیں تھے؟ یہ مت بھولیے کہ جب سہراب اور اس کی بیوی پر میڈیا دہشت گردی کے الزام طے کرتے ہوئے ۲۴۔۲۴ گھنٹے ہر ایک ہندوستانی کے دل میں مسلمانوں کی مسخ شدہ شبیہ پیش کر رہی تھی، ان واردات سے ملک کا ایک ایک مسلمان اپنے دامن پر ان داغوں کو لگا ہوا محسوس کر رہا تھا— لیکن کیا ہوا؟ سچائی سامنے آئی اور بنجارہ آج سلاخوں کے پیچھے ہے— بدلے بدلے سے ہندوستان کا یہ چہرہ بھی دیکھئے۔
شاید تقسیم کے بعد سے ہم مسلسل ایسی صورت حال کا شکار ہو رہے ہیں جہاں ہرکارروائی یا واردات میں شک کی سوئی اچانک ہماری طرف تن جاتی ہے— اور بار بار دوستووسکی کے ایڈیٹ کی طرح سامنے آکر مسکراتے ہوئے ہمیں یہ جواب دینا پڑتا ہے— کہ بھائی اسامہ ہم نہیں ہیں— پاکستان سے آزاد ہندوستان کے مسلمانوں کا کوئی لینا دینا نہیں ہے— کہ بھائی دہشت گردی کا کوئی مذہب نہیں ہوتا—کہ بھائی فلاں کارروائی ہم نے نہیں کی۔
انتظامیہ، فوج وغیرہ سبھی جگہوں پر سنگھ کے بڑے افسر خاموشی سے اپنی خدمات انجام دے رہے ہیں تو کیا عام میڈیا اس خبر سے آشنا نہیں—؟ کیا اس سے یہ نتیجہ نکالنا غلط ہے کہ اس طرح کی زیادہ تر دہشت گرد کارروائیوں کے پیچھے صرف سنگھ ماسٹر مائنڈ رہا ہے، جو اپنی اس گھناؤنی سازش میں کامیاب ہے کہ اتنے شکار کرو، کہ ہر ایک مسلمان پر دہشت گرد ہونے کا شبہ ہو۔
کیا سنگھ کی ان ناپاک سازشوں کا حالیہ سرکار کے پاس کوئی حل نہیں؟ کیا واحد راستہ نوجوان مسلمانوں کے مستقبل کے آگے سوالیہ نشان لگانا ہی ہے— کیا سنگھ کے معاملے میں اپنی زبان کھول کر کانگریس ہندو ووٹوں سے اپنے ہاتھ دھو بیٹھے گی— ان سے بھی بڑا ایک سوال ہے— میڈیا اس آتنک وادی بازار سے کب اپنا پیچھا چھڑائے گی— جہاں ٹی آر پی بڑھانے کے چکر میں وہ مسلسل ملک کو ایک نئے خطرے کی جانب ڈھکیل رہی ہے۔
کس حکومت کو سیکولر کہیں گے اور کس حکومت کو کمیونل؟ مغربی بنگال چلے جائیے وہاں ہر چوتھا آدمی مسلمان ہے اور ان کی آدھی جیلیں مسلمانوں سے بھری ہوئی ہیں۔ مہاراشٹر میں ہر تیسرا اور اترپردیش میں ہر چوتھا قیدی مسلمان ہے…‘
مسلمانوں کو اقلیت کہاجاتا ہے جب کہ جیلوں میں وہ اکثریت میں ہیں۔ لیکن کبھی آپ نے سوچا ہے کہ وہ جیلوں سے باہر کیسے آئیں گے— یہاں جتنی بھی حکومتیں ہیں، سب کی سب مسلمانوں کو سزا دلانے میں آگے ہی آگے ہیں— قیدیوں کو تو یہ بھی نہیں پتہ کہ قانونی مدد کیسے لی جاتی ہے۔ نہ انہیں یہ پتہ ہوتا ہے نہ انہیں وکیل مہیا کرایاجاتا ہے۔ اور نہ ان کے پاس اپنے مقدمے لڑنے کے لیے پیسے ہوتے ہیں۔
پولس میں ، فوج میں مسلمان کہیں بھی نہیں ہیں۔ دلی پولس کی بات کیجئے تو بس دو فیصد مسلمان ہیں۔ ہزاروں بے جرم، بے قصور جیلوں میں قید ہیں اور سیکولرزم کی دہائی دینے والی حکومتیں خاموش ہیں۔ کس پر بھروسہ کریں گے آپ ؟ سچر کمیٹی نے ہی کہاتھا کہ مسلمان کہیں سب سے زیادہ ہیں— تو وہ جیلوں میں ہیں— اور کیا ہوتا ہے ان سفارشات کا— یہ صرف سوال اٹھا کر آپ کو رنجیدہ کرجاتے ہیں— اور اس سے آگے نہ حکومت کے پاس وقت ہے نہ اپازیشن کی اس معاملے میں دلچسپی۔ یہ قصور آپ کا ہے کہ آپ محض ووٹ بینک بن چکے ہیں۔
اور ووٹ بینک اس لیے بن گئے کہ آزادی کے ۶۷ برسوں میںمسلمانوں کو کانگریس نے سیاسی دانشمندی اور سازش کے ساتھ ہر طرح کی سیاسی حصہ داری سے محروم کردیا۔ ۱۹۵۰ کے کالا قانون نے مسلمانوں کو دربدر کی ٹھوکریں کھانے پر مجبور کردیا۔ اور اس کے بعد ملک میں، ریاستوں میں جو بھی سرکاریں رہیں، وہ مسلمانوں کا استحصال کرتی رہیں۔ کانگریس کا سچ تو بے نقاب ہوہی چکا ہے۔ بی جے پی اندنوں مظفر نگر کے قاتلوں کو خوش کرنے میں لگی ہوئی ہے۔ مودی اپنی سبھائوں میں فرضی مسلمانوں کی بھیڑ لاکر یہ دکھانے کی کوشش کررہے ہیں کہ مسلمان ان کے ساتھ ہیں۔ امریکی سینیٹ کے ممبران تک کو مودی اس لیے گوارہ نہیں کہ مودی کے ہاتھ خون سے رنگے ہیں۔ اٹل بہاری باجپائی کو بھارت رتن دلانے کی مانگ کرنے والے بھول گئے کہ یہی باجپئی تھے جنہوں نے گودھرہ حادثہ پر یہ شرمناک بیان دیا تھا کہ گجرات اس لیے ہوا کیونکہ گودھرہ ہوا تھا، اس وقت اترپردیش کی وزیر اعلیٰ مایاوتی تھی۔ مایاوتی نے گجرات میں مودی کی حمایت میں انتخابی تشہیر کی۔ بہن جی اندنوں بی جی پی خیمے میں تھیں۔ گجرات قتل عام پر ان کا بھی جواب سن لیجئے۔ مایاوتی کا بیان تھا کہ گودھرہ بھی تو ہوا تھا۔ اور یہ وہی بیان تھا جو باجپئی نے دیا تھا۔
آزادی کے بعد مسلمانوں کی تاریخ دھند اور تاریکی میں گھری ہوئی ہے۔ آگے بھی اسی دھند اور تاریکی کی حکومت ہوگی۔ لیکن اب وقت آگیا ہے جب ہندوستان کے مسلمانوں کو سنجیدگی سے اپنے روشن مستقبل اور سیاسی حصہ داری کے بارے میں غور کرنا ہوگا۔ وقت کے ساتھ مسلمانوں کی شناخت میں دہشت گردی کا جو بد نما داغ لگا ہے، اسے بھی دھونے کی ضرورت ہے۔ لیکن یہ سب کیسے ہوگا؟ کہنا مشکل ہے۔ مسلمانوں کا آپسی اتحاد اور سیاسی حکمت عملی ہی اس آنے والے انتخاب میں اہم اور نمایاں کردار ادا کرسکتی ہے۔
—مشرف عالم ذوقی