صدر طیب ایردوآن کی طرف سے امریکی اخبار پر سخت تنقید
عراق اور شام میں عسکریت پسندی کے حوالے سے ابھرنے والی تنظیم داعش ترکی کے نوجوانوں کو بھی اپنی طرف مائل کرنے میں کامیاب نظر آتی ہے ۔ ایک اندازے کے مطابق ایک ہزار کے قریب ترک پہلے ہی داعش میں شامل ہیں۔
اس امر کا انکشاف نیو یارک ٹائمز نے اپنی ایک حالیہ رپورٹ میں کیا ہے۔ رپورٹ میں ترک میڈیا اور ترک حکام کا حوالہ بھی موجود ہے۔
اس اخباری رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ داعش کے نظریات اور مالی فوائد ترک نوجوانوں کے اس کی جانب مائل ہونے کی اہم وجوہات ہیں۔
ترک صدر رجب طیب ایردوآن نے نیو یارک کی اس رپورٹ پر تنقید کرتے ہوئے کہا ہے کہ نیو یارک ٹائمز نے رپورٹ میں ان کی تصویر بلا جواز استعمال کی ہے۔ واضح ر
ہے صدر کی تصویر انقرہ کی ایک مسجد کے حوالے سے دکھائی گئی ہے۔
صدر ایردوآن نے کہا اس تصویر کا یہ استعمال شرمناک ہے۔ ترک صدر نے ترک تاجروں کے چیمبر سے اپنے خطاب میں کہا ”ترکی وہ ملک ہے جس نے دہشت گردی کے خلاف لڑائی کی بھاری قیمت ادا کی ہے۔” طیب ایردوآن کرد ورکرز پارٹی کے حوالے سے بات کر رہے تھے۔
واضح رہے جب پچھلے ہفتے امریکی صدر اوباما نے داعش کے خلاف اپنی حکمت عملی کا اعلان کیا تو ترکی نے دو ٹوک کہہ دیا تھا کہ وہ اپنی سرزمین اس مقصد کے لیے استعمال کرنے کی اجازت نہیں دے گا۔ ترکی کے اس انکار کے بعد ہی نیو یارک میں انکشاف انگیز رپورٹ سامنے آئی ہے۔
امریکی سی آئی کی ایک رپورٹ کے مطابق داعش سے کم از کم 20000 سے 31000 ہزار تک عسکریت پسند شامل ہیں۔ ترک صدر نے اسی ہفتے میں کہا تھا کہ ترک فوج ایک بفر زون قائم کر رہی ہے۔ تاکہ داعش کی آمد و رفت میں رکاوٹ پیدا کی جا سکے۔