سینٹر فار اسٹریٹجک اینڈ انٹرنیشنل اسٹڈیز نامی ایک پالیسی ریسرچ گروپ میں بھارتی امور کے ایک تجزیہ کار، رچرڈروسو نے کہا ہے کہ جیسے جیسے بھارتی کاروباری ادارے اپنے کاروباروں کو وسعت دینے کے لیے امریکہ کیمنڈیوں پر نظر ڈالتے ہیں، اور امریکی کمپنیاں بھارت میں زیادہ سرمایہ کاری پر غور کرتی ہیں، تو اس عمل کے
ذریعے دونوں ملک “بڑے پیمانے پر” ایک دوسرے کے قریب آ تے جا رہے ہیں۔
یو بی گروپ کی کمپنیاں، دوائیں تیار کرنے والی ڈاکٹر ریڈیز لیبارٹریز لمیٹڈ، دوسروں کو کام دینے والی ٹاٹا کنسلٹینسیسروسز اور انفوسس لمیٹڈ، اور سافٹ ویئر تیار کرنے والی کمپنی مائنڈ ٹری جیسی بہت سی مختلف النوع بھارتی کمپنیوںنے حالیہ برسوں میں امریکہ میں اپنے کاروباروں میں سرمایہ کاری کی ہے۔
امریکی کمپنیوں نے بھارت میں اپنی کاروباری سرگرمیوں کے لیے زبردست منصوبے تیار کیے ہیں۔ ستمبر 2014 میںبھارتی وزیرِ اعظم نریندر مودی کے واشنگٹن کے دورے سے ذرا پہلے، امریکہ ۔ بھارت بزنس کونسل کے ایک سروےکے مطابق، کونسل کی رکن کمپنیوں نے اندازہ لگایا تھا کہ وہ 2017ء تک بھارت میں 40 ارب ڈالر تک کی سرمایہکاری کر سکتی ہیں۔ امریکی کاروباروں نے مصنوعات سازی، توانائی، طبی سازو سامان، انفارمیشن ٹیکنالوجی اور
دیگر صنعتوں میں سرمایہ کاری کرنے پر غور کیا ہے۔ اس سے نہ صرف بھارت میں روزگار کے ہزاروں مواقع پیداہوں گے بلکہ معیارِ زندگی کو بہتر بنانے میں مدد ملے گی۔
امریکہ – بھارت اقتصادی تعلقات کو اوباما انتظامیہ کی طرف سے بھی مضبوط حمایت حاصل ہے۔ وائٹ ہاؤس کا مقصدبھارت کے ساتھ ” اکیسویں صدی میں ایک ہمہ گیر شراکت داری” کا آغاز کرنا ہے۔ وزیر خارجہ جان کیری اور صدراوباما کے 26 جنوری کے دورے سمیت، بیشمار اعلٰی حکومتی عہدیداروں کے دورے اُسی شراکت داری کی جانب بہت سے کاروباری ماہرین کو یقین ہے کہ بھارت کے اپریل- مئی 2014 کے عام انتخابات میں مودی کی پارٹی کی
شاندار کامیابی نے، دوطرفہ اقتصادی تعلقات کو بلندی پر لے جانے کے نئے مواقع پیدا کر دیے ہیں۔
وزیرِ اعظم نے وعدہ کیا کہ وہ حالیہ سالوں میں ڈرامائی سست روی کے باوجود، بھارت کو ایک عالمی اقتصادی طاقتبنا دیں گے۔ ان کے ذہن میں ایسے بھارت کا تصور ہے جو اشیاء کی تیاری کا ایک عالمی مرکز ہوگا، جس کا بنیادیڈھانچہ مضبوط ہوگا اور جس کے شہروں میں جدید دور کی اعلیٰ سہولتیں دستیاب ہوں گی۔
مودی کے بڑے مقاصد میں سے کچھ کے لیے برائے راست غیرملکی سرمایہ کاری کی درآمد اور بھارت کے صنعتیشعبے کو ترقی کرنے اور زیادہ مسابقتی بنانے کے لیے خصوصی مہارت کی ضرورت ہوگی۔ بھارت کی نئی “Makein India” (بھارت میں بنائیں) نامی مہم کا مقصد، بے جا کاغذی کاروائی کو ختم کرنا اور بھارت میں سرمایہ کاری کوپُرکشش بنانا ہے۔ دیگر جاری اصلاحات میں کلیدی شعبوں میں غیرملکی ملکیت کی حدوں میں اضافہ کرنا، مارکیٹ کا
ایک ایسا ماحول پیدا کرنے پر زور دینا جو تجارت اور اختراعیت کو تقویت دے اور رسد کے سلسلوں کے ارتباط کوبہتر بنانا، شامل ہیں۔ یہ تمام اقدامات مودی کے اقتصادی اور ترقی کے مقاصد کو حاصل کرنے کے لیے ہیں۔
امریکی دلچسپی اور سرمایہ کاری کو نئی بلندیوں تک لے جانابھارتی سائنسدان مریخ۔آربٹر کے کامیاب مشن کا جشن منا رہے ہیں۔ (© AP Images)
جنرل الیکٹرک اور مائیکروسافٹ کارپوریشن جیسی بڑی امریکی کمپنیاں، جدید مصنوعات، خدمات، اور صنعتی طریقوںکو بہتر بنانے کے لیے بھارت میں بڑے تحقیقی اور ترقیاتی مراکز چلاتی ہیں۔
روسو کے مطابق غیر ملکی سرمایہ کاری کے لیے، خواہ وہ امریکہ یا دیگر ممالک سے آئے، بھارت میں اقتصادیاصلاحات درکار ہوں گی۔
روسو نے کہا کہ بعض چھوٹی رکاوٹیں پہلے ہی دور کردی گئی ہیں اور مودی کی حکومت “بڑی اصلاحات کا دائرہ کاربڑھا رہی ہے۔” امریکی کارپوریشنیں اور دیگر ممالک کے کاروبار، خاص طور پر ٹیکس کے سادہ نظام، محنت اوراراضی کے حصول کے ساتھ ساتھ کئی شعبوں میں غیرملکی براہِ راست سرمایہ کاری پر کم یا کوئی حدود نہ عائد کرنےاور مِلکِ دانش کے حقوق کے موئثر تحفظ کے منتظر ہیں۔
2000ء اور 2013ء کے درمیان امریکہ – بھارت دوطرفہ تجارت پانچ گنا بڑھکر، 100 ارب ڈالر ہوگئی۔ اور اوباما اورمودی کا دوطرفہ تجارت کو مزید پانچ گنا بڑھانے کا ایک طویل المدتی مشترکہ مقصد ہے۔ 11 جنوری کو گجرات میںکیری نے سرمایہ کاری کی ایک سربراہی کانفرنس کو بتایا ، “یہ ایک تعلق ہے ۔ ۔ ۔ جس میں ہم یہ پختہ یقین رکھتے ہیںکہ ہم اِس پائیدار اقتصادی ترقی کے مواقعوں کو ایک ایسی خوشحالی میں بدل سکتے ہیں جو ہم نے پہلے کبھی نہیں