یروشلم: اسرائیل کے سابق وزیراعظم ایہود المرٹ رشوت ستانی اور انصاف میں رکاوٹ کھڑی کرنے پر پیر کو 19 مہینے کیلئے جیل چلے گئے۔
وہ قید کی سزا بھگتنے والے پہلے اسرائیلی وزیر اعظم ہیں۔2009 میں اسرائیل اور فلسطین کے درمیان سنجیدہ مذاکرات کے آخری دور میں وہ جبری مستعفی ہو گئے تھے۔
المرٹ نے وسطی اسرائیل کی ایک جیل میں جانے سے کچھ گھنٹے قبل ایک وڈیو جاری کرتے ہوئے اسرائیلی شہریوں سے مدد مانگی۔
انہوں نے اپنے گھر میں فلمائی گئی ساڑھے تین منٹ پر مشتمل وڈیو میں قوم سے اپیل کی کہ وہ بطور ایک لیڈر ان کی امن قائم کرنے کی کوششوں کو یاد رکھیں۔ انہوں نے اپنے خلاف رشوت ستانی کے الزامات بھی مسترد کیے۔
انہوں نے کہا کہ یہ وقت ان کے اور اہل خانہ کیلئے بہت تکلیف دہ ہے اور وہ سزا کو اس لیے قبول کر رہےہیں کہ کوئی بھی قانون سے بالاتر نہیں۔
70سالہ اولمرٹ کو 2006 میں وزیر اعظم بننے سے بہت پہلے بطور یروشلم کے میئر اور وزیر تجارت ایک متنازعہ پراپرٹی منصوبے کی تشہیر کیلئے رشوت قبول کرنے کے الزامات پر مارچ، 2014 میں سزا سنائی گئی تھی۔
انہیں ابتدا میں چھ سال قید کی سزا سنائی گئی تھی لیکن سپریل کورٹ نے بعد میں ان کی سزا کم کرتے ہوئے 18 مہینے کر دی۔
بعد ازاں ایک معتمد کو اپنے خلاف عدالت میں گواہی نہ دینے پر مجبور کرنے پر مزید ایک مہینہ سزا بڑھا دی گئی۔
وہ اپنے خلاف ایک اور مقدمے میں ملنے والی آٹھ مہینے قید کی سزا کے خلاف اپیل کے فیصلے کے بھی منتظر ہیں۔
اولمرٹ پر الزام ہے کہ انہوں نے ایک امریکی حامی سے غیر قانونی طور پر رقم وصول کی۔
اولمرٹ 2009 میں کرپشن الزامات پر مستعفی ہونے پر مجبور ہو گئے تھے، جس کی وجہ سے اسرائیل اور فلسطین کے درمیان سنجیدہ مذاکرات کا آخری دور متاثر ہوا۔
ان کے مستعفی ہونے کی وجہ سے سخت گیر بینجمن نیتن یاہو کے اقتدار میں آنے کا راستہ صاف ہوا۔