بنگلہ دیش کے حالیہ انتخابات میں 20 فی صد سے ذرا زیادہ ووٹ ڈالے گئے جبکہ 300 میں سے صرف 147 نشستوں پر ہی انتخابات ہوئے
حزبِ اختلاف کے بائیکاٹ اور تشدد کے واقعات کے دوران بنگلہ دیش کی حکمراں جماعت عوامی لیگ نےعام انتخابات میں کامیابی حاصل کر لی ہے۔
انتخابات کے یہ نتائج کسی سے پوشیدہ نہیں تھے کیونکہ ملک میں حزب اختلاف کی اہم جماعتوں نے انتخابات کے بائیکاٹ کا اعلان کر رکھا تھا۔
ان انتخابات میں ملک کی مجموعی 300 نشستوں میں نصف سے بھی کم پر انتخابات کرائے گئے۔
اتوار کو ووٹنگ کے دوران کم از کم 18 افراد ہلاک ہو گئے جبکہ اس سے قبل انتخابی مہم کے دوران درجنوں افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔
ان انتخابات میں اطلاعات کے مطابق تقریبا 20 فی صد ووٹ ڈالے گئے کیونکہ بہت کم لوگ ووٹ دینے نکلے جبکہ اس سے قبل سنہ 2008 کے انتخابات میں 70 فی صد سے زیادہ ووٹ ڈالے گئے تھے۔
حکام کا کہنا ہے کہ اس بار تشدد کے خوف اور بائیکاٹ کے سبب زیادہ تر لوگ ان انتخابات کے عمل سے دور رہے۔
حزب محالف کی اہم جماعت بنگلہ دیش نیشنل پارٹی نے سنیچر سے ملک گیر پیمانے پر 48 گھنٹے کی مکمل ہڑتال کا اعلان کر رکھا تھا۔ پارٹی رہنما خالدہ ضیا نے ان انتخابات کو ’انتخابات کا مذاق اڑانے‘ سے تعبیر کرتے ہوئے اپنے حامیوں سے ’مکمل بائیکاٹ‘ کا اعلان کیا تھا۔
حزبِ مخالف یہ چاہتی تھی کہ یہ انتخابات ماضی کی روایت کے مطابق غیرجانبدار نگراں حکومت کے نگرانی میں ہوں، لیکن شیخ حسینہ واجد کی حکومت اس پر تیار نہیں تھی۔
اتوار کو وسیع پیمانے پر تشدد کے واقعات رونما ہوئے
امریکہ، یورپی یونین اور دولتِ مشترکہ نے بنگلہ دیش میں انتخابات کی نگرانی کرنے کے لیے اپنے مبصرین بھیجنے سے انکار کر دیا تھا جس کے بعد بنگلہ دیشی حزبِ مخالف کا کہنا ہے کہ یہ انتخابات قابلِ اعتبار نہیں ہوں گے۔
اتوار کو وسیع پیمانے پر تشدد کے واقعات رونما ہوئے اور سینکڑوں پولنگ سٹیشنوں کو نذرِ آتش کر دیا گیا جن میں زیادہ تر سکول تھے۔ حزب مخالف اور پولیس کے درمیان پر تشدد جھڑپیں ہوئیں۔
تین سو میں سے کل 147 سیٹوں پر انتخابات ہوئے، جن میں سے آٹھ کے نتائج تاحال نہیں آئے۔ باقی نشستوں میں سے عوامی لیگ کو 105 سیٹوں پر کامیابی حاصل ہوئی ہے جب کہ اتحادی پارٹیوں اور آزاد امیداواروں کو 34 سیٹیں ملی ہیں۔
اس سے قبل عوامی لیگ کو 127 سیٹوں پر بلامقابلہ جیت حاصل ہو چکی ہے۔
حتمی نتائج سوموار کے دیر گئے آنے کی امید کی جا رہی ہے۔ ان نتائج سے یہ بات واضح ہے کہ شیخ حسینہ کو حکومت سازی میں کسی قسم کا مسئلہ درپیش نہیں ہوگا۔