آج 6دسمبر ہے۔ یعنی آج کا دن سیکولرہندوستان کے چہرے کی شبیہ بگاڑنے والادن ہے۔ یہ بدنماداغ اس قدر غیر معمولی ہے جسے صدیوں بعد بھی مٹایا نہیں جاسکے گا۔ 6دسمبر2002کو آج ہی کے دن ’دہشت گردی ‘اور’فرقہ پرستی‘ نے ملک میں اپنی فتح کا جشن مناتے ہوئے گنگا جمنی تہذیب کی علامت بابری مسجد کو بزوربازو شہید کردیا تھا اور مسلمانوں کے مذہبی جذبات کا علی الاعلان خون کرتے ہوئے غاصبانہ قبضہ کے تحت رام مندر(عارضی طور پر) تعمیر کردی گئی تھی۔چودہ برسوں قبل سیکولر ہندوستان کی عظمت وحرمت کو ملیا میٹ کرنے والی اس دہشت گردی کو دنیا بھرمیں ناظرین نے ٹی وی اسکرین پر دیکھا اور پرنٹ میڈیا نے اس کی منظر کشی اپنے اپنے طور پر سلیقے اور قرینے سے کرتے ہوئے سیکولراقدار کی دھجیاں اڑانے کے واقعے کو کوریج دیا۔تقریباً ڈیڑھ دہائی پہلے بھگوان رام کا نام لے کر دہشت گردی کا ننگا ناچ کرنے والوں کو ہر سال 6دسمبرکا دن شاید یہی پیغام دے جاتا ہے کہ’ تمہاری سفاکی کو ہندوستانی ارباب وقت تماش بین کی طرح دیکھتے رہیں گے، حکومت وقت اور نظام عدل کو تمہیں کیفر کردار تک پہنچانے کی فکرقطعاً دامن گیر نہیں ہوگی، چنانچہ تم جس قدرچاہو طوفان بدتمیزی برپاکرتے رہو، فرقہ پرستی کی آگ میں سیکولر ہندوستان کو جھونکتے رہو، قانون مجبورمحض بنا رہے گا، قانون نافذ کرنے والے ادارے تمہارا بال بھی بیکا نہیں کرسکیں گے‘۔ شاید آج کا کڑوا سچ بھی یہی ہے۔6دسمبر کا سیاہ دن جب جب آئے گا ہندوستانی مسلمانوں کے درمیان یہ فکر ضرور چھوڑ جائے گا کہ تمہیں فرقہ پرستوں کے ذریعہ مسلنے اور کچلنے کی کوششیں ہوتی رہیں گی، قسطوں میں تمہارے مذہبی جذبات مجروح کیے جاتے رہیں گے، سیکولرزم کا دم بھرنے والی سیاسی جماعتوں کونہ تو تمہاری آبرو کی حفاظت کی فکر ہوگی اور نہ ہی مذہبی عبادت گاہوں کو علی الاعلان زمیں بوس کرنے والوں کے خلاف تادیب کی کوئی تلوار لٹکائی جائے گی۔ہرسال 6دسمبر کی تاریخ آتی رہے گی اور ہندوستان کے مظلوم مسلمانوںکے دلوںمیںظلم وجبر کی یہ تلخ حقیقت ٹیس بن کر چبھتی رہے گی جب تک انصاف کے دروازے بند رہیں گے۔
آزاد ہندوستان کی تاریخ کے اس بدترین دن کو یاد کرتے ہوئے محب وطن ہندوستانی مسلمانوںکا دل جلتا ہے تو اس میں غلط بھی کیا ہے۔ ہزاروں مسلمانوںکا خون اسی بابری مسجد کے تعلق سے بہایا گیا، سیکڑوں بہوئوں اور بیٹیوں کی آبرو سے کھلواڑکیا گیا، لاکھوں افراد فرقہ وارانہ دہشت گردی اور مسلمانوں کی نسل کشی کی کوششوں کے درمیان لاکھ پتی سے خاک پتی بنادیے گئے،ان کو اقتصادی اور مالی اعتبار سے کمزور کرنے کے لیے ہر ایک فرقہ وارانہ فسادات کے دوران منظم طریقے سے لوٹ مچائی گئی۔ یہ کیوں ہوا؟ اس کی بنیادی وجہ یہ تھی کہ مسلمانوں نے بابری مسجد کے دعوے سے دستبرداری گوارا نہیں کی۔ ظاہر ہے کہ اس کے سنگین نتائج کسی اور کو نہیں مسلمانوں کو ہی بھگتنے تھے۔ چنانچہ فرقہ وارانہ دہشت گردی کے ننگے ناچ کے دوران ظلم وجبر کی ہرحدوں کو عبور کیاگیا اور اس کے بعد بھی جب مسلمانان ہند نے عزم جاودانی کا مظاہرہ کرتے ہوئے یہ پیغام سرعام دے دیا کہ لاکھ جتن کے باوجود بھی ہندوستانی مسلمان بابری مسجد کی دعویداری سے کسی بھی صورت میں دستبردار نہیں ہوسکتا تو آخر کار دہشت گردی کا آخری معرکہ سر کرتے ہوئے اعلانیہ ــطریقے سے لاکھوں کارسیوکوںکو جمع کرکے کثرت میں وحدت کی ساڑھے چار سو سالہ تہذیب کی علامت کو پلک جھپکتے ہی زمیں بوس کردیا گیا۔ حیرت اور ستم تو اس بات کا ہے کہ یہ سب کچھ ایسے موقع سے ہوا جب بابری مسجد کی حفاظت کے لیے بڑی تعداد میں سلامتی دستے تعینات کیے گئے تھے اور پورے ملک کی ہی نہیں بلکہ دنیا بھر کی نگاہیں اس جانب ٹکی تھیں کہ آج کیا ہونے والا ہے؟ سلامتی دستوں کی موجودگی بہرحال یہ پیغام دے رہی تھی کہ فوج کے جوان آہنی عزم و ارادہ کے تحت فرض شناس بنتے ہوئے ہندوستان کی عظمت کو برقرار رکھنے کی آخری کوشش کریں گے، لیکن فرقہ وارانہ دہشت گردی نے ان کے آہنی عزائم کو ایسا کافور کیا کہ جنہیں سلامتی کی ذمہ داری سونپی گئی تھی وہ تماش بین بن بیٹھے۔ مذہبی جنونیوں کے ذریعہ نہ صرف یہ کہ دن کے اجالے میں بابری مسجد شہید کردی گئی بلکہ عالمی میڈیا کو اس کے کوریج سے روکنے کے لیے ہر وہ حربہ اور طریقہ اختیار کیا گیا جسے انتہا درجہ کی شرمناکی قرار دیا جاسکتاہے۔ ان کے ساتھ ناروا سلوک تو اختیار کیا ہی گیا ، بربریت کی منظر کشی روکنے کے لیے آخری حربے کے طور پر اس وقت تک کے لیے انہیں یرغمال بنالیا گیا جب تک کہ بابری مسجد کو نیست و نابود نہ کردیا گیا ۔ برطانوی خبر رساں ایجنسی بی بی سی کے نامہ نگار اور نیوز ویک کی ٹیم کے ساتھ جس طرح کی دہشت گردی کا مظاہرہ کیا گیااس کی مثال آج تک آزاد ہندوستان میںکبھی دیکھنے کو نہیں ملی۔ بی بی سی کے نامہ نگار مارک ٹیلی نے سانحہ ٔ شہادت بابری مسجد کا نقشہ کن لفظوں میں کھینچا ہے اور اس سے ہندوستان کا چہرہ کس قدر داغ داربن رہا ہے آئیے انہی کے لفظوں میں دیکھیں:
’’6دسمبر 1992کو میں اجودھیا میں ایک ایسی بلڈنگ کی چھت پرکھڑا تھا، جہاں سے بابری مسجد واضح اور صاف طور پر دکھائی دے رہی تھی۔ یہ بی جے پی اوراس کی ان اتحادی جماعتوں کا دن تھا جو باری مسجد کی مسماری میں اس کا ساتھ دے رہی تھیں مگر یہ حکومت اور عدالت سے وعدہ کرچکی تھیں کہ وہ محض ایک علامتی کارسوا کررہے ہیں اور یہ کہ ایک مذہبی تقریب ہے اوراس سے مسجد کی عمارت کو کسی قسم کاکوئی خطرہ لاحق نہیںہے۔ بہت بھیڑ تھی، میرا اندازہ ہے کہ کم از کم ڈیڑھ لاکھ کی آبادی رہی ہوگی۔ وہ سب بی جے پی اور وشو ہندو پریشد کے سخت گیر رہنمائوں کی تقریریں سننے میں مصروف تھے۔ ان رہنمائوں میں لال کرشن اڈوانی اورمرلی منوہر جوشی کے نام قابل ذکر ہیں۔ پریشانی اس وقت شروع ہوئی جب پیشانی پرزعفرانی پٹیاں باندھے کچھ نوجوانوں نے مسجد کے تحفظ کی خاطر بنائی گئی حد بندیوں (بیریئر) کو توڑ دیا۔ پولس کھڑی ناظر کے مانند محض دیکھتی رہی۔ دریں اثنا وہی زعفرانی پٹیاں باندھے نوجوان جو مذکورہ تنظیموں کی جانب سے نظم ونسق کی برقراری کے لیے تعینات کیے گئے تھے آگے آئے اور انہیںروکنے کی کوشش کرنے لگے۔ پھرپتہ نہیں کیا ہوا کہ وہ اچانک وہاں موجود ٹی وی صحافیوںکو پیٹنے لگے۔ ان کے کیمروں کوتوڑ دیا اوران کے ٹیپ ریکارڈ کو بھی نقصان پہنچایا۔ جوش سے بھرے یہ ہزاروں نوجوان آگے بڑھے اور مسجد کی حفاظت کے لیے کھڑے پولس اہل کاروں کے حصار کوبھی توڑ دیا۔ یہ سب بہت اچانک ہوا۔ وہ حصار پارکرنے کے بعد میں نے دیکھا کہ وہ نوجوان مسجد کے اطراف موجود بینروں پرچڑھنے لگے، جہاں سے ایک چھلانگ میں وہ مسجد کے گنبد پرنظرآتے تھے۔ بالآخرپولس وہاں سے دور ہوگئی ۔۔۔ ہم نے دیکھا کہ دو نوجوان بالکل مسجد کے درمیانی گنبد پرپہنچ گئے ہیں جس کی تقلید بہت سارے نوجوانوں نے کی۔ وہ لوگ مورنار (ایک تیز دھارہتھیار) سے وہ گنبد کوتوڑنا شروع کردیتے ہیں۔ اس کے بعد ٹیلی فون کی تمام لائنیں کاٹ دی گئیں۔ لہٰذا اپنی اسٹوری فائل کرنے کے لیے مجھے مجبوراً فیض آباد کا رخ کرنا پڑا۔ بہرحال اس کے بعد جب میں واپس آیا اور قبل اس کے کہ اس مقام پر دوبارہ پہنچ پاتا ،دیگر ساتھی صحافیوں کے ساتھ کارسیوکوں کے ہتھے چڑھ گیا۔ انہوںنے ہم لوگوں کو ایک کمرے میں بند کردیا۔ ہم تب تک اس روم میں محصوررہے جب تک کہ اجودھیا کے ہی ایک مندر کے مشہورپجاری کے ایک ساتھی نے ہماری مدد نہیں کی ۔ مگر تب تک بابری مسجد مکمل طور پرمنہدم ہوچکی تھی۔‘‘
یہ تصویر تھی اس کھلی دہشت گردی کی جسے آج سے چودہ برس قبل ان قوتوں نے انجام دیا جس کا بال بیکا کرنا بھی حکومت کو گوارا نہیں۔ 464سالہ قدیم بابری مسجد کو صفحۂ ہستی سے مٹانے کے بعد ہر چند کہ غاصبانہ قبضے کے تحت عارضی طور پررام مندرتعمیر کردی گئی اور بھگوان رام کی مورتی کا مسجد کے جائے مقام پر ’وجود‘ اس کھلی دہشت پسندی کا آج بھی ہر کسی کو اقرار واعتراف کرنے پر مجبور کررہی ہے لیکن اس پورے قضیے کا سب سے شرمناک پہلو یہ ہے کہ اس دہشت گردی کو انجام دینے والے افراد ہنوز کیفر کردار تک نہیں پہنچائے جاسکے ہیں اور مسلمانوں کی عظمت رفتہ کو بحال کرنے کے حوالے سے انتظامی مشنری/حکومت مکمل طور پر فیل ہے۔7دسمبر1992کوقوم سے خطاب کے دوران اس وقت کے وزیر اعظم آنجہانی نرسمہارائو نے مسلمانوں سے وعدہ کیا تھا کہ’بابری مسجد اسی جگہ پر تعمیرہوگی‘۔ آج چودہ برسوں بعد بھی یہاں کی حکومت کو اپنے ہی وزیر اعظم کے وعدے کا نہ تو پاس ہے اور نہ ہی لحاظ۔
اسے کمال بے شرمی کہا جائے یا بے حیائی کا نقطۂ عروج کہ چودہ برسوں کے درمیان اپنے ہی وزیر اعظم کے اس وعدہ کو تو بھلایا ہی گیا حد تو یہ ہے کہ بابری مسجد کی شہادت کے بعد درج ہونے والے دو مقدمے بھی فیصل نہیں کیے جاسکے۔ خیر یہ چودہ برس کی قلیل مدت کی بات ہے ،شرم تو اس وقت آتی ہے جب اس مقدمے کی جانب نگاہ جاتی ہے جو 1949میں بابری مسجد اراضی کی ملکیت کے حوالے سے درج کی گئی تھی ۔اسے نظام عدل کا المیہ کہہ کر بات کو ختم کرنے کے علاوہ کوئی دوسرا راستہ نہیں ورنہ معزز جج صاحبان کا عتاب جھیلنا مقدر بن جائے گا۔ قصہ یہیں ختم نہیں ہوتا ہے۔ جب بات نکلتی ہے تونکلتی چلی جاتی ہے۔ اس موقع سے لبراہن کمیشن کا تذکرہ بے محل نہ ہوگا جسے بابری مسجد کی شہادت کے بعد مکمل انکوائری کی ذمہ داری سونپی گئی تھی۔ لبراہن کمیشن کی مدت کار کا بار بار بڑھایا جانا اور رپورٹ کو منظر عام پر لانے سے گریز کا راستہ اختیارکرنا حکومت ہند کی نیک نیتی پر سوالات کے بوجھ کھڑے کررہا ہے۔
سانحۂ شہادت بابری مسجد کے اصل مجرمین اڈوانی ،جوشی ،اوما،سنگھل،ڈالمیا ،سادھوی اور قبیل کے وہ تمام جن کی جگہیں سلاخوں کے پیچھے ہونی چاہئے تھی ،آج آزاد فضاؤں میں جی رہے ہیں تو اس میں قصور ان عناصر کا ہی ہے جو خود کو سیکولر کہتے نہیں تھکتے،مگر ان کا ایمان دراصل فسطائیت ہی ہے۔
6دسمبر کی تاریخ ہندوستانی مسلمانوںکے لیے اگر یوم سیاہ ہے تو دوسری جانب اسے مسلمانوں کے لیے یوم دعا سے تشبیہ دینا غلط نہ ہوگا۔ یہ موقع سال میں ایک بار مسلمانان ہند کو دعوت فکر دے جاتا ہے کہ صاحبو! کثرت میں وحدت کے اصول دوسرے بالائے طاق کیوں نہ کرتے رہیں تم صبروتحمل کا دامن ہرگز ہرگز مت چھوڑنا۔ یوم دعا کے موقع سے ہماری یہی دعا ہوسکتی ہے کہ اللہ کے پاک گھر کو گرانے والے ناپاک ہاتھوں کو اللہ غارت کرے۔ جہاں تک کسی خوش فہمی میں مبتلا ہونے کا تعلق ہے تو ہندوستانی مسلمانوںکو قطعاً اس بات کے تئیں خوش گمان نہیں ہونا چاہئے کہ ارباب وقت سیکولر ہندوستان پر لگنے والے اس بدنما داغ سے ہونے والی پشیمانی کو کرے گی۔(یو این این)
شاہدالاسلام