فلمساز و اداکار گورودت نے جب مسٹر اینڈ مسز 55 میں مدھو بالا کو کاسٹ کرنے کا فیصلہ کیا تو کچھ لوگوں کو حیرت ہوئی۔ اس سے پہلے مدھو بالا کی فلمیں فلاپ ہورہی تھیں۔ گورودت کو یقین تھا کہ مدھو بالا اس کردار کیلئے انتہائی موزوں ہے۔ اس نے یہ رسک لے لیا اور پھر مدھو بالا نے یہ مختلف کردار اتنے شاندار طریقے سے ادا کیا کہ فلم بین عش عش کر اٹھے۔ مدھو بالا نے جس فنکارانہ مہارت سے مغل اعظم میں انارکلی کا کردار کیا اس کی مثال نہیں ملتی۔
شہزادہ سلیم اور انارکلی کے رومانس پر اس سے پہلے بھی فلمیں بن چکی تھیں لیکن کے۔آصف جیسے جنونی شخص نے اس کے باوجود اس قصے کو سلولائیڈ کے فیتے پر منتقل کرنے کا فیصلہ کیا۔ مدھو بالا کے بعد کسی فلمساز یا ہدایت کار کو اتنی جرات نہ ہوسکی کہ وہ اس موضوع پر فلم بنائے اور انارکلی کا کردار ادا کرنے کیلئے کسی اور اداکارہ کا انتخاب کرے۔
ہندوستانی فلمی صنعت میں ممتاز جہاں بیگم المعروف مدھو بالا کو دیو مالائی کردار کی حیثیت حاصل ہے۔ اس اداکارہ نے 1942 میں صرف آٹھ سال کی عمر میں اداکاری کا آغاز کیا اور 27 برس میں فلمی دنیا سے کنارہ کشی اختیار کرلی۔ یہ طلسماتی اداکارہ 1950ء کی دہائی میں مقبولیت کے عروج پر رہی۔ اسے مختلف خطاب دیئے گئے ، کبھی وینس آف انڈین سنیما (Venus of India Cinema) کہا گیا اور کبھی اسے وینس آف دی ایسٹ (Venus of the East) کہہ کرپکاراگیا۔ مدھو بالا کی شخصیت کی کئی جہتیں تھیں۔ باپ کی فرمانبردار بیٹی، انتہائی حساس، ایثار کیش، غریب پرور، شائستہ مزاج کی حامل اور کبھی کسی کی برائی نہ کرنے والی مدھو بالا صرف 36برس کی عمر میں اس جہان رنگ وبو سے رخصت ہوگئی لیکن وہ آج بھی کروڑوں فلم بینوں کے دلوں پرراج کرتی ہے۔ نہ صرف ہندوستان بلکہ پاکستان میں بھی مدھو بالا کے مداحین کی تعداد بہت زیادہ رہی ہے۔ بالی وڈ اور لالی وڈ کی آج کی ہیروئنیں بھی اس بات پر متفق ہیں کہ مدھو بالا جیسی ہیروئن اب آئندہ نہیں آئے گی۔ اسی طرح شاہ رخ خان، ہریتک روشن اور نصیرالدین شاہ جیسے اداکار مدھوبالا کو آل ٹائم گریٹ اداکارہ تسلیم کرتے ہیں۔
ہندوستان کی ادیبہ خدیحہ اکبر نے بالی وڈ کے اس دیو مالائی کردار پر ایک شاندار کتاب تخلیق کی ہے جس کاعنوان ’’میں زندہ رہنا چاہتی ہوں… مدھو بالا کی کہانی (I want to live……The story of (Madhubala)ہے جس میںبے حد دلکش انداز میں ان کی شخصیت پرروشنی ڈالی گئی ہے اسی کا اقتباس پیش قارئین ہے۔
دیوآنند ایک ہینڈسم اور مہذب اداکار تھے۔ سکرین پر لوگ اسے مدھوبالا کے ساتھ بہت پسند کرتے تھے۔ مدھو بالا نے دیوآنند کے ساتھ کئی فلموں میں کام کیا۔ اس وقت وہ ہندی سکرین کے ایڈونس اور وینس تھے۔ (وینس یونانی دیو مالائی کاکردار جسے حسن کی دیوی کہا جاتا تھا اور ایڈونس اس کا محبوب تھا) مدھو بالا نے دیوآنند کے ساتھ سب سے پہلے 1950ء میں ریلیز ہونے والی فلم ’’نرالا‘‘ میں کام کیا اور دیوآنند کے ساتھ اس کی آخری فلم ’’شرابی‘‘ تھی جو 1964ء میں ریلیز ہوئی۔ اس وقت مدھو بالا کو فلمی صنعت سے الگ ہوئے طویل عرصہ ہوچکا تھا۔ اس بیچ ان دونوں نے ’’آرام، نادان، مدھوبالا، مدن، ارمان، کالاپانی اور جعلی نوٹ‘‘ میں اکٹھے کام کیا۔
نو فلموں میں کام کرنے کے باوجود یہ دونوں ایک ٹیم کی حیثیت سے کلک نہ کرسکے۔ اعلیٰ درجے کی کارکردگی کے باوجود کچھ نہ کچھ تھا جو غائب تھا۔ یقیناً وہ شرارہ، وہ چنگاری نہیں تھی جو ہونی چاہیے تھی۔ راج کھوسلہ کی ہدایتکاری میں بننے والی فلم ’’کالاپانی‘‘ کو ان دونوں کی بہترین فلم کہا جاسکتا ہے۔ اس فلم کی موسیقی ایس ڈی برمن نے دی تھی اور اس کے گیتوں نے بھی ہلچل مچا دی تھی۔ مدھو بالا نے اس فلم کے گیتوں کی پکچرائزیشن میں جس طرح چہرے کے تاثرات سے کام لیا، اس کی جتنی توصیف کی جائے کم ہے۔
خاص طور پر یہ گانا ’’اچھا جی میں ہاری چلو مان جائو نا‘‘ بہت پسند کیا گیا اور اس میں مدھو بالا نے یادگار پرفارمنس دی۔ ہدایت کار راج کھوسلہ کے مطابق وہ ’’بمبئی کا بابو‘‘ میں مدھو بالا کو کاسٹ کرنا چاہتا تھا مگر اس نے اداسی بھرے لہجے میں کہا کہ میں کسی اور کو کاسٹ کر لوں۔ اسے غالباًعلم تھاکہ اس کی بیماری اسے بھرپور طریقے سے کام نہیں کرنے دے گی۔ 1964ء میں ’’شرابی‘‘ ریلیز ہوئی تو اس کے اشتہارات میں لکھا ہوتا تھا۔ شاعر نے حسن دیکھا، سنگ تراش نے اس کا تصور تراشا، انہوں نے اسے وینس کا نام دیا، ہم اسے مدھو بالا کہتے ہیں۔‘‘ ’’شرابی‘‘ مدھو بالا کی زندگی میں ریلیز ہونے والی آخری فلم تھی۔ ’’جوالا‘‘1971ء میں مدھوبالا کی وفات کے بعد ریلیز ہوئی۔ کوئی سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ سکرین پرنظرآنے والی متحرک اور پرجوش مدھو بالا اس قابل بھی نہیں رہیگی کہ اپنی فلموں کو مکمل کرواسکے۔
دیوآنند کا کہنا تھا ’’مدھو بالا ایک تنومند زندگی اور توانائی سے بھرپور عورت تھی اور وہ ہر وقت ہنستی رہتی تھی۔ پھر غیر متوقع طور پر وہ ایک دن فلموںسے غائب ہوگئی۔‘‘ دلیپ کمار کے ساتھ مدھو بالا نے سب سے پہلے ’’ترانہ‘‘ میں کام کیا۔ اس وقت اس کی عمر 18سال تھی۔ یہ فلم 1951ء میں ریلیز ہوئی۔ اس کے با رے میں ’’فلم انڈیا‘‘ نے لکھا ’’بہت عرصے کے بعد ہدایت کار رام دریانی نے ہمیں ایک شاندار تفریحی فلم دی ہے۔‘‘ دلیپ کمار اور مدھو بالا پہلی بار ایک زبردست رومانوی جوڑ ے کے طور پر سامنے آئے ہیں۔ دلیپ کمار نے ’’ترانہ‘‘ کے بارے میں کہا ’’1949 میں ایک فلم ہار سنگھار میں بھی مدھو بالا نے میرے ساتھ کچھ مناظر عکس بند کرائے تھے۔ لیکن یہ فلم جلد ہی ڈبوں میںبند ہوگئی۔ اس کے ہدایت کار مہیش کول تھا۔ جس وقت ترانہ ریلیز ہوئی اس سے پہلے دلیپ کمار ’’میلہ، شہید، بابل، دیدار اور جوگن‘‘ جیسی سپرہٹ فلموں میں کام کر چکا تھا۔ وہ ایک ہینڈسم، سنجیدہ اور نرم مزاج نوجوان تھا اور شاندار اداکار تھا۔ وہ ہندی فلموں کا بے تاج بادشاہ تھا۔
اس نے اپنے دور کی منجھی ہوئی اداکارائوں کے ساتھ کام کیا تھا جن میں نرگس،نورجہاں، کامنی کوشل اور نمی شامل تھیں۔ اب وہ مدھو بالا کے ساتھ کام کررہا تھا۔’’ محل ‘‘کے بعد مدھو بالا کی شہرت کا ڈنکا ہر طرف بج رہا تھا ۔ یہ دونوں سٹار دیویکارانی کی دریافت تھے اور اس جوڑے نے پوری ہندوستانی قوم کے دلوں کو فتح کرلیا۔ مدھو بالا نے دلیپ کمار کے بارے میں اپنی بہنوں کوبتایا کہ وہ ایک ایسے اداکار کے ساتھ کام کررہی ہے جس کی آنکھوں سے مقناطیسی شعاعیں نکلتی ہیں۔ اس کے مطابق ان آنکھوں میں اتنی جاذبیت ہے کہ ایک بار جو اس کی طرف دیکھ لے بس پھر دیکھتا ہی رہتا ہے۔ اس کی آنکھیں ایسی ہیں کہ لگتا ہے جیسے پسے ہوئے موتیوں سے بھری ہوئی ہیں۔ دلیپ کمار کے بارے میں میں نغمگی سے بھرپور یہ بیان اس اداکارہ کا تھا جسکے دل کے چمن میں اس کی محبت کا پھول کھل اٹھا تھا۔ ’’ترانہ‘‘ کے علاوہ مدھو بالا اور دلیپ کمار ’’سنگدل، امر، اور مغل اعظم‘‘ میں اکٹھے جلوہ گر ہوئے۔ امر بھی دلیپ کمار اور مدھو بالا کی یادگار فلموں میں سے ایک ہے۔