کراچی ۔پاکستانی ڈرامے ‘زندگی گلزار ہے’ اور حال ہی میں ‘ہمسفر’ نے انڈین ٹیلیویڑن ‘زی زندگی’ پر سرحد کی دوسری جانب پاکستانی فنکاروں کے پرستاروں کی تعداد کو بڑھایا ہے، فواد خان تو بولی وڈ میں ‘خوبصورت’ کے ذریعے ڈیبیو بھی کرچکے ہیں اور اب ہندوستانی عوام اس بات پر شرطیں لگارہی ہے کہ ماہرہ خان کب ممبئی کی فلمی صنعت کا حصہ بنتی ہیں۔ماہرہ خان جو حال ہی میں اپنے ‘ہمسفر’ کے پرستاروں سے ملنے ممبئی گئی تھی، نے ہندوستان ٹائمز سے بات کرتے ہوئے پرستاروں کے گرم جوش ردعمل پر خوشی کا اظہار کیا “وہ حیرت انگیز تھا، میں نے حال ہی میں ٹوئیٹر جوائن کیا ہے اور اس کے بعد سے مجھے خوشگوار تجربے کا سامنا ہوا ہے، گزشتہ روز میں ایک مال میں گئی اور وہاں لوگ مجھے سے ملنے کے لیے جمع ہوگئے”۔ماہرہ نے اپنے ٹوئیٹر اکاؤنٹ پر بھی ہندوستان میں گزارے گئے اپنے وقت کے دوران پرستاروں کی محبت پر شکرگزاری کا اظہار کیا ہے۔ندوستان ٹائمز سے بات کرتے ہوئے ماہرہ نے بولی وڈ فلموں اور اپنے پسندیدہ ستاروں کے بارے میں بھی بات کی ” وہ بہت زیادہ ایڈوانس ہیں، ہماری فلمی صنعت ابھی ابھر رہی ہے، مجھے پچاس اور ساٹھ کی دہائی کی بلیک اینڈ وائٹ فلمیں بہت پسند ہیں جن میں گورودت کی ‘پیاسا’ اور دلیپ کمار کی ‘ترانہ’ بھی شامل ہیں، شاہ رخ خان کی فلمیں بھی میری فیورٹ ہیں، میں اس وقت لڑکپن میں تھی جب میں ‘دل والے دلہنیا لے جائیں گے’ دیکھی، جس نے مجھے اتنا دیوانہ بنایا کہ میں اسے ناشتے، کھانے اور رات کو کھانے کے دوران بھی دیکھتی تھی”۔جب ان سے پوچھا گیا کہ وہ بولی وڈ میں کب ڈیبیو کررہی ہیں تو ان کا جواب تھا “میں ایسا کرنا پسند کروں گی، تاہم ابھی میں کسی ہندی فلم میں کام نہیں کررہی، ایسی افواہیں موجود ہیں کہ میں ایک فلم میں رنویر سنگھ کے ساتھ آرہی ہوں مگر وہ درست نہیں”۔انتیس سالہ پرکشش اداکارہ نے ٹیلی چکر اور ممبئی میں پریس کانفرنس کے دوران ان افراد کا بھی ذکر کیا جن کے ساتھ وہ کام کرنے کی خواہشمند ہیں۔”نوجوانوں کی لاٹ میں مجھے رنبیر کپور پسند ہیں جو زبردست اداکار ہیں اور شاہ رخ خان تو میرے فیورٹ ہیں اور اگر ڈائریکٹر کی بات کی جائے تو میں امتیازعلی اور وشال بھردواج کا نام لوں گی”۔ماہرہ نے کہا کہ ایک بیوی اور ماں ہونے کے باوجود ڈراموں میں کام سے ان کی زندگی متاثر نہیں ہوئی۔”میں خوش قسمت ہوں کہ مجھے اچھے کام کی پیشکش ہوئی اور میں نے اپنے کام اور ذاتی زندگی کے درمیان ایک توازن برقرار رکھا، ہماری صنعت کا ماحول خاندان دوست ہے اور پاکستان میں سینما کو تاحال بزنس نہیں آرٹ سمجھا جاتا ہے”۔