ممبئی، سپنوں کی نگری، امکانات کی دنیا، جس کی فضائوں میں جادو ہے، کالا جادو، جو ناممکن کو ممکن بنا دیتا ہے، پَلوں میں!اِس جادو نگری میں روز ہی سپنوں کے متلاشی قدم رکھتے ہیں، امیدوں سے لدے پَھندے۔ اْن میں سے اکثر تو گْم نام رہتے ہیں، اور بعض جانے پہچانے جاتے ہیں، کہ اْن کا تعلق نام وَر خاندانوں سے ہوتا ہے۔ مگر حیرت انگیز طور پر گذشتہ دو دہائیوں کے درمیان اِس نگری کا حصہ بننے والوں کو، اِس بات سے قطع نظر کہ وہ گْم نام ہیں یا نام وَر، اپنی شناخت بنانے کے لیے یک ساں جدوجہد کرنی پڑی، جو بیش تر معاملات میں نتیجہ خیز ثابت نہیں ہوئی۔ سبب واضح تھا، اِس نگری پر تین تین اِکّوں کا حکم چلتا ہے، جو ’’خانز‘‘ کے نام سے جانے جاتے ہیں۔ اور یہ ہیں، لیجنڈ تصور کیے جانے والے شاہ رخ، سلمان اور عامر خان، ایک سے بڑھ کر ایک!
گوکہ تینوں ’’خانز‘‘ پچاس کے پیٹھے میں ہیں، لیکن نوجوان ہیروئنوں کے ساتھ رومانس کے لیے وہ آج بھی ڈائریکٹرز، پروڈیوسرز کی اولین ترجیح ہیں۔ یہی نہیں، اگر ایکشن فلم ہو، تب بھی ’’خانز‘‘ ہی زیر غور رہتے ہیں۔ جہاں تک فلموں کے بزنس کا تعلق ہے، دیگر فن کاروں کا اِن تینوں سے کوئی موازنہ نہیں۔ اس وقت ’’سو کروڑ کلب‘‘ میں شامل بیش تر فلمیں ’’خانز‘‘ ہی کی ہیں۔ جن چھے فلموں کے مجموعی بزنس نے دو سو کروڑ سے تجاویز کیا، (تھری ایڈیٹس، ایک تھا ٹائیگر، باڈی گارڈ، دبنگ، را۔ ون، ڈون ٹو) وہ، اس معاملے میں سوچنے کی ضرورت نہیں، اِن ہی جنگ جوئوں کی تھیں۔گوکہ اکشے کمار، اجے دیوگن اور ریتک روشن کو بھی سپراسٹار تصور کیا جاتا ہے، تاہم اْن کی کام یابیوں کے تناسب کا ’’خانز‘‘ کے کارناموں سے کوئی موازنہ نہیں۔انفرادی حیثیت میں جائزہ لیا جائے، تو کنگ خان کے نام سے معروف شاہ رخ خان ایک طویل عرصے تک نمبرون کی مسند پر براجمان رہے، اپنی بڑھتی شہرت اور اثرات کے طفیل بین الاقوامی چہرہ بن گئے۔ اس عرصے میں اجے، اکشے اور ریتک کو اْن کے مدمقابل کھڑا کرنے کی کوشش کی گئی، لیکن بات نہیں بنی۔ کنگ خان کو ٹکر دینے کے لیے بالآخر ایک اور خان کو سامنے آنا پڑا، اور یہ تھے عامر خان، جنھوں نے ’’لگان‘‘ کے بعد ایک نئے سفر کا آغاز کیا۔بعد میں ’’گجنی‘‘ اور ’’تھری ایڈیٹس‘‘ کی کام یابی نے ثابت کر دیا کہ وہ کسی طور شاہ رخ سے کم نہیں۔ ٹھیک اْسی زمانے میں ایک طویل عرصے تک ناکامیوں کا کرب سہنے والے سلمان کا ستارہ چمکا۔ اْنھوں نے ’’دبنگ‘‘، ’’ریڈی‘‘، ’’باڈی گارڈ‘‘ اور ’’ایک تھا ٹائیگر‘‘ جیسی فلمیں کیں، جنھوں نے اْنھیں شہرت کے آسمان پر پہنچا دیا۔آج، مقبولیت کی بلند ترین چوٹی پر، بلا شبہہ، ’’خانز‘‘ ہی براجمان ہیں۔ وہاں کسی اور کے لیے جگہ نہیں کہ وہ اْن کا علاقہ ہے۔
اْن کے مقام تک رسائی کا دیگر اداکار خواب تو دیکھ سکتے ہیں، لیکن فی الحال یہ سچ ہوتا نظر نہیں آتا کہ ڈسٹری بیوٹرز ہوں، یا پروڈیوسرز اْنھیں تو بس ’’خانز‘‘ کے جادو میں دل چسپی ہے کہ یہ طاقت کا سب سے بڑا مرکز ہیں۔ بادشاہ ہی نہیں، بادشاہ گر بھی ہیں۔ نئے ہدایت کار، اداکار اور کہانی نویس بھی اپنی قسمت چمکنانے کے لیے اْن کے اثرات پر انحصار کرتے ہیں، ان سے نتھی ہونے میں عافیت جانتے ہیں۔ہاں، گذشتہ دو دہائیوں میں چند ایسے فن کار ضرور سامنے آئے، جنھیں اپنی پہلی ہی فلم کے بعد سپراسٹار گردانا جانے لگا، (سب سے روشن مثال ریتک روشن ہیں) مگر جوں جوں وقت گزرتا گیا، اْن کی چمک حکم راں ’’خانز‘‘ کے سامنے ماند پڑتی گئی۔ پھر یا تو وہ مقابلے سے خارج ہوگئے، یا سپراسٹار بننے کا خواب تج کر اپنی انفرادی شناخت بنے میں جْٹ گئے۔آخر ’’خانز‘‘ کی بڑھتی طاقت، حیران کن اثرات کا سبب کیا ہے؟ کیا فقط ’’خان‘‘ کا لاحقہ کافی ہے۔ شاید نہیں۔ حقیقت تو یہ ہے کہ اِن تینوں سپراسٹارز میں کئی قدریں مشترک ہیں۔ اور یہی قدریں اْن کی قوت کا بنیادی سبب ہیں، جو اْنھیں دیگر سے ممتاز بناتی ہیں، جن میں سے چند کچھ یوں ہیں:شاہ رخ، عامر اور سلمان، تینوں ہی ’’خانز‘‘ کو اپنے کیریر میں ناکامیوں کا تلخ ذائقہ چکھنا پڑا۔ خصوصاً سلمان خان کو ہٹ فلموں کے لیے خاصا انتظار کرنا پڑا۔
تاہم ہر بار یہ اداکار ناکامیوں کی دلدل سے بڑی قوت کے ساتھ اْبھرے۔ فلاپ فلموں کو کبھی خود پر حاوی نہیں ہونے دیا۔ 2005 میں ’’منگل پانڈے‘‘ کی ناکامی کے بعد عامر خان ’’رنگ دے بسنتی‘‘ جیسی متاثر کن فلم کے ساتھ واپس آئے۔ 2009 میں ریلیز ہونے والے ’’وانٹڈ‘‘ سے قبل سلمان خان کی کئی فلمیں لگاتار فلاپ ہوئیں۔ اِسی مانند شاہ رخ خان نے ’’پہیلی‘‘ کی ناکامی کے بعد ’’اوم شانتی اوم‘‘ جیسی بڑی ہٹ دی۔تینوں ’’خانز‘‘ ہر بار کچھ نیا کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اْنھیں عصری تقاضوں کا، جدید سنیما کی ضروریات کا شعور ہے۔ وہ خود کو بدلتے حالات سے ہم آہنگ کرلیتے ہیں۔ ضرورت آپڑے تو تجربات سے بھی گریز نہیں کرتے۔ عامر خان اپنے نئے نئے ہیراسٹائلز کے لیے مشہور ہیں۔ کبھی وہ مونچھیں رکھ لیتے ہیں، کبھی وزن بڑھالیتے ہیں۔
سلمان بھی ناظرین کے مزاج کو سمجھتے ہیں۔ جانتے ہیں، سنیمابیں اْنھیں بغیر شرٹ کے دیکھنا چاہتے ہیں، سو ہر فلم میں وہ شرٹ ضرور اتارتے ہیں۔ شاہ رخ نے بھی ضروریات کو مدنظر رکھتے ہوئے متاثر کْن تجربات کیے۔ ’’چک دے‘‘ میں شیو بڑھا لی، ضرورت محسوس ہوئی تو ’’سپرہیرو‘‘ بن گئے، ’’مائی نیم از خان‘‘ میں معذور شخص کا روپ دھار لیا۔مقبولیت ’’خانز‘‘ کا بڑا ہتھیار ہے۔ ان کے مداحوں کی تعداد کروڑوں میں ہے۔ کنگ خان بین الاقوامی دنیا کے لیے بھارتی انڈسٹری کا مقبول ترین چہرہ ہیں۔ سلمان ہندوستانی سنیما پر چھائے ہوئے ہیں۔ عامر بھی پیچھے نہیں، اْنھیں انٹرنیشنل اور لوکل سنیما، دونوں ہی میں احترام کی نظر سے دیکھا جاتا ہے۔ آسکر ایوارڈ کے لیے نام زد ہونے والی فلم ’’لگان‘‘ اور ’’تھری ایڈیٹس‘‘ کے بعد اْنھوں نے متوازی سنیما میں بھی چند حیران کن تجربات کرکے خوب داد بٹوری۔’’خانز‘‘ کی صلاحیتوں سے استفادہ کرنا آسان نہیں، فلم ہو، ٹی وی شو یا اشتہارات، یہ بھاری معاوضہ وصول کرتے ہیں۔ اگرچہ شاہ رخ، سلمان اور عامر خاصے منہگے اداکار ہیں، اس کے باوجود تمام برانڈز اْنھیں ترجیح دیتے ہیں۔ ٹی وی چینلز کے مالکان کی بھی یہ خواہش ہوتی ہے کہ اْن کے پروگرام کا میزبان ’’خانز‘‘ ہی میں سے کوئی ہو۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ اْن کی کتنی مانگ ہے۔مداحوں کی دیوانگی:’’خانز‘‘ کے چاہنے والوں پر طاری دیوانگی حیران کن ہے۔ اْن کے مداح فقط ہندوستان ہی میں نہیں، پوری دنیا میں پھیلے ہوئے ہیں۔ یورپ اور امریکا میں جہاں شاہ رخ کا سِکّہ چلتا ہے۔
وہیں ہندوستان کے چھوٹے بڑے شہروں میں سلمان چھائے ہوئے ہیں۔ عامر سنجیدہ فلم بینوں کی پہلی ترجیح ہیں۔سچ تو یہ ہے کہ اْن کی مداحوں کی محبت حدیں پار کر گئی ہے۔ سوشل میڈیا پر کئی ’’فینز کلب‘‘ ہیں، جہاں صارفین اپنے من پسند خان کی بابت اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہیں۔ اْن کی فلموں کی ریلیز کے سمے سوشل میڈیا پر ایک خاص نوع کی شدت در آتی ہے، اور یہ فینز کلب باقاعدہ اکھاڑے بن جاتے ہیں۔ یہ کہا جاسکتا ہے کہ ’’خانز‘‘ کے مداحوں کی فرازنگی، لیجنڈز تصور کیے جانے والے رجنی کانت اور کمل ہاسن کے مداحوں کی دیوانگی کے رنگ میں رنگتی جارہی ہے۔’’خانز‘‘ فلاحی سرگرمیوں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے ہیں۔ یہ اپنی بے پناہ مقبولیت اور اثرات کے باوجود محدود نہیں، ہندوستان کے عام باسیوں سے جڑے ہوئے ہیں، اور اپنی اسٹار پاور کو بڑی خوبی سے فلاحی کاموں میں برتتے ہیں۔ شاہ رخ اور عامر خان حکومت کے فلاحی پروگرامز میں باقاعدگی سے شرکت کرتے ہیں۔ دوسری جانب سلمان خان ایک سماجی تنظیم Being Human سے جْڑے ہوئے ہیں۔ عامر خان کو انڈسٹری میں قدم رکھے 24 برس بیت گئے ہیں، مگر آج بھی اْن کی فنّی صلاحیتیں تازہ ہیں۔ اِس فن کار نے فلم انڈسٹری کو ’’رنگیلا‘‘، ’’لگان‘‘، ’’رنگ دے بسنتی‘‘، ’’گجنی‘‘ اور ’’تھری ایڈیٹس‘‘ جیسی یادگار فلمیں دیں، جنھوں نے سنیما کو نیا روپ عطا کیا، کئی ریکارڈز توڑے۔ اْن کی آخری پانچ فلموں نے لگ بھگ 445 کروڑ کمائے۔
وہ فلم کے لیے30 سے 40 کروڑ وصول کرتے ہیں۔ فلم کی تشہیر کا منفرد طریقٓ کار عامر کی پہچان ہے، جس کی وجہ سے وہ پروڈیوسرز کی چہیتے ہیں۔تجزیہ کار، تارْن ادیش کے بہ قول، عامر ہمیشہ کچھ نیا کرنے کی کوشش کرتے ہیں، اْن کی فلمیں ریلیز سے قبل ہی ناظرین کی توجہ حاصل کر لیتی ہیں، وہ بلا کے محنتی ہیں، اور یہی اْن کی قوت ہے، پھر وہ فیشن کی بھی اچھی سمجھ رکھتے ہیں۔بادشاہ خان لگ بھگ 20 برس سے انڈسٹری کا حصہ ہیں۔ ’’بازی گر‘‘، ’’دل والے دلہنیا لے جائیں گے‘‘، ’’دل تو پاگل ہے‘‘، ’’کچھ کچھ ہوتا ہے‘‘، ’’کل ہو نہ ہو‘‘، ’’اوم شانتی اوم‘‘، ’’مائی نیم از خان‘‘ اور ’’ڈان ٹو‘‘ جیسی کام یاب اور رجحان ساز فلموں کے طفیل وہ ایک طویل عرصے تک فلم نگری پر چھائے رہے۔ اْن کی آخری پانچ فلموں نے باکس آفس پر 423.81 کروڑ سمیٹے، خصوصاً بیرون ملک کئی ریکارڈز بنائے، ناقدین کی توجہ حاصل کی۔
’’ایس آر کے‘‘ ہر فلم کے لیے 20 سے 25 روپے وصول کرتے ہیں، اشتہارات سے بھی یومیہ بنیادوں پر لاکھوں کماتے ہیں۔معروف تجزیہ کار، کومل نیہتا کے مطابق شاہ رخ خان نے یہ مقام لگاتار ہٹ فلموں کے وسیلے حاصل کیا ہے، اْن کی آخری چھے فلمیں باکس آفس پر کام یاب قرار پائیں، وہ توانائی سے بھرپور ہیں، دوست دشمن کی اچھی پہچان رکھتے ہیں۔دبنگ خان گذشتہ 23 برس سے انڈسٹری پر چھائے ہیں۔ وہ حقیقی معنوں میں عام ہندوستانی کے ہیرو ہیں۔ اْنھوں نے ’’میں نے پیار کیا‘‘، ’’ہم آپ کے ہیں کون‘‘، ’’ہم دل دے چکے صنم‘‘، ’’وانٹڈ‘‘، ’’دبنگ‘‘، ’’باڈی گارڈ‘‘ اور ایک تھا ٹائیگر‘‘ جیسی سپرہٹ فلمیں کیں۔ اْن کی آخری پانچ فلموں نے حیران کْن طور پر 480 کروڑ جیسی خطیر رقم کمائی، اور ہندوستانی سنیما کو ہمیشہ ہمیشہ کے لیے بدل کر رکھ دیا۔ وہ ایک فلم کے لیے23 سے 27 کروڑ وصول کرتے ہیں۔معروف اداکارہ، پریانکا چوپڑا کے مطابق ناظرین سلو کے دیوانے ہیں، اْن کی اداکاری میں کسی قسم کی پیچیدگی نہیں، اگر اسکرین پر اْن کی تصویر بھی لگا دی جائے گی، تب بھی فلمیں سپرہٹ ثابت ہوں گی۔ کریناکپور تو اْنھیں ممبئی فلم انڈسٹری کا رجنی کانت قرار دے چکی ہیں۔
٭٭٭٭٭٭٭٭