تحریری یقین دہانی کے بعد صارفین نے مظاہرہ کیا ختم
چندولی:سخت دھوپ ، خشک نہریں، بجلی کے بغیر سفید ہاتھہ ثابت ہو رہے نجی و سرکاری ٹیوب ویل اوپر سے بجلی محکمہ کے افسران کا ناکارہ پن ۔ ایسی صورتحال میں ایکس ای این ، ایس ڈی او، جے ای اور ٹھیکیدار سے پریشان کسان و شہری لاکھ درخواست کریں پھر بھی محکمہ کی صحت پر کوئی اثر نہیں پڑتا۔ جولائی ماہ گزر گیا لیکن پانی کی کمی کی وجہ سے دھان کی نرسری کھیتوں میں نہیں لگ سکی جو لگی بھی وہ خشک ہونے پر ہے۔ ایسے حالات میں مرتا تو کیا نہ کرتا کی طرز پر سیکڑوں کی تعداد میں کسانوں نے دو شنبہ کو قصبہ واقع بجلی سب اسٹیشن پہنچ کر ناراضگی کے ساتھ اپنے جمہوری اختیارات کے تحت دھرنا دیا۔ صبح ۹ بجے سے شروع دھرنے کی اطلاع فوراً مذکورہ افسران کو ہوگئی۔ اس کے باوجود کوئی نہ کوئی بہانہ بناکر افسر موقع پر پہنچ کر محکمہ کی ناکامی اور کسانوں کے مسائل کو سمجھنے سے کتراتے رہے۔
آخر کار ضلع کی انتظامی مداخلت کے بعد ایس ڈی او تقریباً بارہ بجے دن میں دھرنے کی جگہ پر پہنچے۔ کسانوں نے انہیں اپنے گھیرے میں لیتے ہوئے اپنی دری پر بٹھا لیا۔ کسانوں کا کہنا تھا کہ ہائی ٹینشن کے مخدوش تاروں سے کراس آرم اور انسولیٹر کے سبب مہینوں سے چوبیس گھنٹوں میں صرف تین گھنٹے بجلی فراہم کی جا رہی ہے وہ بھی مسلسل ٹریپنگ کے ساتھ۔ جس پر علاقائی لائن مینوںنے بھی اپنی منظوری کی مہر بھی نہیں لگائی بلکہ سب اسٹیشن پر تعینات ایس ایس او نے بھی بتایا کہ جب تک مذکورہ مخدوش آلات تبدیل نہیں کئے جاتے تب تک بجلی کی فراہمی کر پانا ناممکن ہے۔ اس کے باوجود ایس ڈی او اپنی لاپروائی کو تسلیم کرنے اور مکمل حل کی کوشش کرنے کے بجائے لوگوں کو گمراہ کرنے کی گھنٹوں کوشش کرتے رہے۔ آخر کار جب ناراض مظاہرین نے یہ اعلان کر دیا کہ جب تک مسئلہ حل نہیں ہو جاتا تب تک ایسے ہی ہم لوگوں کے ساتھ ایس ڈی او بھی بیٹھے رہیں گے۔
تب تقریباً چار بجے تحریری طور سے مذکورہ تکنیکی خامیوں کو درست کراکر آئندہ دو اگست تک روسٹر کی بنیاد پر بجلی کی فراہمی طے کر دی جائے گی۔ اگر یہ مقررہ مدت میں ۸ نکاتی مطالبات کا وعدہ پورا نہیں ہو پایا تو پوری ذمہ داری ہماری ہوگی۔ اس تحریری یقین دہانی پر دھرنا ختم کرتے ہوئے مظاہرین نے ایس ڈی او کو چھوڑ دیا۔ اس موقع پر اشوک سنگھ، رنکو سنگھ، راجیش یادو، سمنت، اودھیش کمار گپتا، سہیل خان، عالم خاں چودھری وغےرہ موجود رہے۔