لکھنؤ(نامہ نگار)۔ریاست میں نافذ نئی بجلی شرحوں کا سب سے زیادہ بھار دیہی صارفین پر پڑے گا ۔ نئے بجلی کنکشن پر صارفین سے میٹر فیس وصولی گئی اور میٹر نہیں لگائی ہے ۔ اس کے باوجود انمیٹرڈ سپلائی کے نام پر دیہی علاقوں کی شرحین بڑھادی جب کہ پیسے لینے کے بعد میٹر لگانے کی ذمہ داری بجلی کمپنیوں کی تھی ۔ ریگولیٹری کمیشن نے بجلی کمپنیوں کی ناکامی کو نظر انداز کرتے ہوئے عوام پر ہی بوجھ بڑ
ھا دیا جب کہ کمیشن کو میٹر نہ لگانے کے لئے بجلی کمپنیوں و پاور کارپوریشن پر کارروائی کرنی چاہئے تھی ۔ ریاست میں آج سے نئی بجلی شرحین نافذ ہو چکی ہے اور ریگولیٹری کمیشن پاور کارپوریشن کے ناجائز وغیر قانونی کاموں پر پردہ ڈالنے کا کام کررہا ہے ۔ ریاستی بجلی صارفین کونسل کی جانب سے ریاست کی بجلی کمپنیوں کی خامیوں کو اجاگر کرنے کے باوجود آیوگ اسے نظر انداز کررہا ہے ۔
صارفین کونسل کے صدر اودھیش کمار ورما نے کہا کہ ریگولیٹری کمیشن کو بجلی ایکٹ ۲۰۰۳کی دفعہ ۶۱اور ۶۲کے تحت بجلی شرح طے کرنے کا حق ہے لیکن اسے صارفین کے مفاد کا خیال رکھنا چاہئے ۔ ایسے میں سوال یہ اٹھتا ہے کہ صارفین سے میٹر کی فیس لینے کے بعد بھی ان کے یہاں میٹر نہ لگانے کے لئے بجلی کمپنیاں ذمہ دار ہیں ان پر کارروائی کیوں نہیں کی گئی ۔ انمیٹرڈ صارفین پر بھار ڈال کر بجلی کمپنیوں کے مفاد کو محفوظ رکھنے کا جو کام کمیشن کی جانب سے کیا گیا ہے وہ پورے طور پر غلط ہے ۔ مسٹر ورما نے کہا کہ ۲۰۰۵کے بعد بغیر میٹر کے کنکشن دینے کے لئے ریگولیٹری کمیشن کے ذریعہ بجلی کمپنیوں کے خلاف کوئی بھی سخت کارروائی کی ہدایت کیوں نہیں کی گئی جب کہ ایکٹ کے مطابق اسے یہ کرنا تھا ۔ صارفین کونسل صدر نے کہا کہ حقیقت میں اگر کمیشن کی پالیسیاں شفاف ہیں تو اسے انمیٹرڈ صارفین کی شرحوں میں کمی کرنا چاہئے تھا ۔ انہوں نے کہا کہ سوال یہ ہے کہ پوری ریاست میں کروڑوں روپئے جو میٹر کے نام پر لیا گیا اور میٹر نہیں لگایا گیا تو ایسے میں یہ کہنا غلط نہیں ہوگا کہ بجلی کمپنیوں نے اگر اس رقم کو فکسڈ ڈپازٹ کرایا ہوگا تو اس سے کروڑوں کا بڑا فائدہ ہو رہا ہوگا ۔