’ جہاں رہنا ہے وہاں رہیے، جتنی بڑی گاڑی میں چلنا ہے چلیے، بس ایمانداری سے کام کرتے رہیے۔‘
تو آخر اروند کیجریوال نے دہلی کے وزیر اعلی کا حلف اٹھا ہی لیا اور اپنی تقریر میں اعلان کیا کہ انتِخابی مہم کے دوران جتنے بھی وعدے کیے گئے تھے، انہیں پورا کرنے کے لیے وہ اور ان کے وزرا دن رات کام کریں گے۔
سر، آپ کا استقبال ہے، اگر آپ صرف دن میں ہی کام کریں تو بھی چلے گا۔
یہ بھی ضروری ہے کہ آپ گھر پر بچوں کے لیے بھی ٹائم نکالیں اور اپن
ی صحت کا بھی خیال رکھیں کیونکہ آپ کے وعدوں کی فہرست لمبی ہے، انہیں پورا کرنے میں وقت لگے گا۔
ویسے تو آپ کے پاس بہت قابل مشیر ہیں، لیکن پھر بھی اگر اجازت ہو تو کچھ مشورے ہیں، اگر مناسب سمجھیں تو ایک نظر ڈال لیجیے گا۔
اپنے پہلے دور اقتدار اور بدعنوانی کے خِلاف تحریک کے دوران آپ نے روایتی سیاستدانوں کو خوب نوازا تھا، آپ کے اسٹیج سے انہیں چور اور غدار کہا گیا، ایک نعرہ ہمیں اب بھی یاد ہے: دیش کے غداروں کو، گولی مارو سالوں کو!
اس وقت آپ کو سن کر لگتا تھا کہ تمام سیاستدان چور ہیں، وہ بڑے گھروں میں رہتے ہیں، بڑی بڑی گاڑیوں میں گھومتے ہیں، سرکاری پیسہ چراتےاور جب چرا نہ رہے ہوں تو بے وجہ اڑاتے ہیں۔ اس لیے آپ نے عزم کیا تھا کہ آپ ایک عام آدمی کی طرح چھوٹے گھر میں رہیں گے۔
پھر آپ وزیراعلی بن گئے اور یہ بحث شروع ہوگئی کہ دس کمروں کا گھر چھوٹا ہے یا بڑا، اگر دو چھوٹے فلیٹ ملا لیے جائیں تو وہ ایک بڑی کوٹھی کےبرابر ہوجاتے ہیں یا چھوٹے ہی رہتے ہیں۔
اس مرتبہ آپ نے نے سمجھداری سے کام لیتے ہوئے پہلے ہی یہ اعلان کردیا کہ آپ کو ’پاؤں پھیلانے کے لیے‘ چار پانچ کمروں کا گھر تو چاہیے ہی، ایسا گھر جس میں چار پانچ سو لوگوں کو بٹھانے کے لیے کرسیاں ڈالنے کی جگہ بھی ہو۔۔۔یہ زیادہ پریکٹیکل حکمت عملی ہے۔
بہت سے لوگوں کا اس وقت بھی خیال تھا کہ یہ بے کار کی بحث ہے، جہاں رہنا ہے وہاں رہیے، جتنی بڑی گاڑی میں چلنا ہے چلیے، بس ایمانداری سے کام کرتے رہیے۔
بڑی کوٹھی میں آپ نہیں رہیں گے تو کوئی اور سیاسی رہنما یا افسر رہے گا، وہاں غریبوں کے لیے فلیٹ تو بننے سے رہے۔ سابق وزیر اعلی شیلا دکشت ایسی ہی ایک کوٹھی میں رہتی تھیں، ادھر سے کبھی گزریں تو ایک نظر ڈال لیجیے گا۔
اسی طرح اپنے اراکین اسمبلی سےیہ بھی کہیے گا کہ آّٹو رکشا سے اسمبلی آنے کے چکر میں نہ پڑیں۔ یہ بس جب تک ہی اچھا لگتا ہے جب اسمبلی کے دروازے پر فوٹوگرافر آپ کے انتظار میں کھڑے ہوں۔
دراصل یہ علامتی باتیں ہیں، آپ نے اپنی تقریر میں یہ بھی کہا کہ بہت سے یورپی رہنماؤں کی طرح ملک کا وزیر اعظم بس سےدفتر کیوں نہیں جا سکتا؟ اس کا جواب ہم آپ کو بتاسکتے ہیں کیونکہ ہم اکثر بس سے دفتر آنے کی کوشش کرتے ہیں اور آخرکار گاڑی نکالنی ہی پڑتی ہے۔
بس اتنی بھری ہوئی آتی ہے کہ اس میں چڑھنا جان جوکھم میں ڈالنے سے کم نہیں ہے، جب بس نہیں آتی تو آٹو کا رخ کرنا پڑتا ہے لیکن آٹو والا کبھی وہاں جانے کے لیے تیار نہیں ہوتا جہاں آپ کو جانا ہو۔
ذرا سوچیے کہ ملک کا وزیر اعظم اپنے دوست براک (اوباما) سے ملنے کے لیے بس سٹاپ پر تیار کھڑا ہے، بس میں گھسنے کی گنجائش نہیں ہے، آٹو والا پارلیمنٹ یا راشٹرپتی بھون کی طرف جانے سے انکار کر رہا ہے، اور جو جانے کو تیار ہیں وہ میٹر سے پچاس روپے زیادہ مانگ رہے ہیں!
ان کے بلیک میل کے سامنے جھک جائیں تو آپ ناراض ہوں گے، کہیں گے بدعنوانی ایسے ہی بڑھتی ہے، سٹنگ کرکے مجھے ویڈیو بھیج دیتے تو میں سخت کارروائی کرتا، اور بلیک میل سے انکار کر دیں تو براک ناراض ہو جائیں گے! وہ اتنی دور سے یوم جمہوریہ کی پریڈ دیکھنے آئے ہیں، راستے میں انہیں بھی پک کرنا ہے، صرف پچاس روپے کے لیے تو امریکہ سے تعلقات نہیں بگاڑے جا سکتے۔
اس لیے ان لوگوں کی بات پر بھی غور کیجیے گا جن کا کہنا ہے کہ بجلی ہاف، پانی معاف مسئلے کا حل نہیں ہے۔
کوشش یہ ہونی چاہیے کہ ہرگھر بجلی پہنچے، اور ہر گھر پانی، اور ’ہاف اور معاف‘ سے جو پیسہ بچے اس سے آپ بسیں خریدیں، سڑکوں، ہسپتالوں اور سکولوں کی حالت بہتر بنائیں، شہر میں سیور کی لائن ڈلوائیں۔۔۔ کرنے کے لیے بہت کچھ ہے۔
لیکن نہ کرنے والے کاموں کی فہرست بھی بہت لمبی ہے۔
آپ کا وعدہ ہے کہ ہر بس میں عورتوں کی حفاظت کے لیے ایک مارشل تعینات کیا جائے گا۔ یہ بات بہت سے لوگوں کی سمجھ سے باہر ہے۔
بس میں پہلے سے ہی ایک ڈرائیور اور ایک کنڈکٹر ہوتا ہے، انہیں جوابدہ بنانے کی ضرورت ہے۔ شہر کے چپے چپے پر لاکھوں کیمرے نہیں بسوں میں سی سی ٹی وی لگانے کی ضروت ہے۔
پانچ ہزار بسوں میں مارشل تعینات کرنے کے لیے کم سے کم 17 ہزار لوگوں کی ضرورت ہوگی، کیوں نہ اس پیسے کو پرائمری سکولوں پر خرچ کیا جائے جہاں نہ ٹیچر ہیں، نہ ٹائلٹ نہ پینے کا صاف پانی۔
لیکن سب جانتے ہیں کہ جو اعلانات آپ نے کر دیے ہیں، ان سے پیچھے ہٹنا آپ کے لیے اب آسان نہیں ہوگا۔ آپ کو شاید یاد ہو کہ شیلا دکشت نے ایک مرتبہ کہا تھا کہ مفت میں کچھ نہیں ملتا، بجلی کے بل کم کرنے ہیں تو بجلی کم استعمال کیجیے! اور انتخابات میں ان کا کیا حشر ہوا، آپ کو معلوم ہی ہے۔
خیر، آپ اپنے ایجنڈے پر عمل کیجیے لیکن بہت سے لوگ اب بھی یہ مانتے ہیں کہ مفت میں کبھی کچھ نہیں ملتا، بجلی ہاف، پانی معاف لیکن اگر آپ غریب ہیں اور طبعیت خراب ہو جائے تو پھر بھی بینک بیلنس صاف!