لندن…برطانیہ سمیت یورپی ممالک کے شہری کام پرتوجاتے ہیں مگر بڑھتے ہوئے ڈیپریشن کے سبب تخلیقی صلاحیتوں کے مطابق کام نہیں کرپارہے۔ اس صورتحال سے بڑی فرمز کو سالانہ 92 ارب یورو نقصان کا سامنا ہے، اقتصادی بحران کا شکار یورپی ممالک میں لوگوں کو نوکری میسرہو،وہ کام پرآئیں لیکن جتنا کام کرنا ہووہ نہ کرپائیں۔یہ صورتحال ایک بیماری بن چکی ہے اور اس سے یورپی کمپنیوں کو سو ارب ڈالر سالانہ کے قریب نقصان کا سامنا ہے۔ ایک بڑی فرم کے نائب صدر کا کہناہے کہ وہ خود بھی ڈپریشن کاشکارہے اوربعض اوقات توحدبھی پارہوجاتی ہیں۔ سروے کے مطابق یورپ بھرکے مقابلے میں برطانیہ کے ملازمین سب سے زیادہ ناخوش رہتے ہیں اوران میں سے صرف دوتہائی اپنی کمپنیوں سے مطمئن ہیں۔ دفاترمیں کام کرنے والوں کی ذہنی حالت کو سمجھنے والے کہتے ہیں کہ اگر سینئر اسٹاف کسی کو تھوڑا ہی سہی۔ سراہے توملازمین کا مورال بلند ہوجاتاہے اورزرا سی خوش گپیوں سے لوگوں کی تخلیقی صلاحیت بہترہوجاتی ہے۔ماہرین کے نزدیک افسراورماتحت میں دوری بھی ڈیپریشن کا سبب بنتی ہے۔یورپ میں ذہنی بیماریوں کا بڑا سبب ڈپریشن کو قراردیاجاتاہے۔بڑی بڑی تنخواہیں دینے والی کمپنیوں کو ملازمین کی تخلیقی صلاحیتیں کم ہوتی نظرآئی ہیں تو اس بیماری کا بھی انہیں شدت سے احساس ہواہے اور اس کے حل کی جانب سوچا جارہاہے۔تاہم جو لوگ ڈپریشن کا شکار ہوتے ہیں ان کا کہناہے کہ تنخواہ کم ،گھنٹوں مغزماری اورپھر افسرکامنہ بناہوا۔یہ سب ہوتوڈپریشن نہ ہوتوکیاملازم کادل گارڈن گارڈن ہوگا۔