برلن میں امریکی سفارت خانے سے متصل برطانوی سفارت خانے کی چھت پر سفید رنگ کے ڈھانچے کے بارے میں خیال کیا جاتا ہے کہ یہ جاسوسی کی سرگرمیوں کے لیے استعمال ہوتا ہا ہے۔
جرمنی کے دارالحکومت برلن میں برطانوی سفارت خانہ امریکا کی جاسوسی کی سرگرمیوں کے لیے ایک اڈے کے طور پر استعمال ہوتا رہا ہے۔جرمن وزارت خارجہ نے برطانیہ سے اس معاملے کی وضاحت طلب کی ہے۔
لندن سے شائع ہونے والے اخبار انڈی پینڈنٹ نے منگل کو ایک رپورٹ شائع کی ہے جس میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ امریکا کی نیشنل سکیورٹی ایجنسی (این ایس اے) کی خفیہ دستاویزات ،فضائی تصاویر اور اس کی جرمنی میں ماضی میں جاسوسی کی سرگرمیوں سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ برطانوی سفارت خانہ جاسوسی کے ایک اڈے کے طور پر استعمال ہوتا رہا ہے کیونکہ اس کی چھت پر جاسوسی کے آلات بھی لگے ہوئے تھے۔
جرمن وزارت خارجہ نے اپنے بیان میں کہا کہ برلن میں متعین برطانوی سفیر کو وزیرخارجہ گائیڈو ویسٹر ویلے نے اس معاملے کی وضاحت کے لیے طلب کیا ہے۔یورپی ڈیپارٹمنٹ کی وزارت کے سربراہ کا کہنا ہے کہ کسی سفارتی مقام سے مواصلاتی گفتگو کی جاسوسی بین الاقوامی قانون کے منافی ہوگی۔
برطانوی سفارت خانے نے اخبار کی رپورٹ پر کوئی تبصرہ کرنے سے انکار کیا ہے۔البتہ برطانوی دفتر خارجہ نے اس بات کی تصدیق کی ہے کہ سفیر نے جرمنی کی خارجہ امور کی وزارت میں ایک سنئیر عہدے دار کی دعوت پر اجلاس میں شرکت کی ہے۔
سفارتی اصطلاح میں ملاقات کی دعوت کو طلبی سے کم تر سمجھا جاتا ہے۔گذشتہ ماہ برلن میں متعین امریکی سفیر کو چانسلر اینجیلا مرکل کے موبائل فون کی جاسوسی سے متعلق رپورٹس منظرعام پر آنے کے بعد وضاحت کے لیے طلب کیا گیا تھا۔
جرمنی کے کثیرالاشاعت ہفت روزہ اخبار ڈیر اسپیگل میں شائع شدہ ایک رپورٹ میں پہلی مرتبہ یہ انکشاف کیا گیا تھا کہ امریکا کی نیشنل سکیورٹی ایجنسی دوسروں کے علاوہ چانسلر انیجیلا مرکل کی بھی جاسوسی کرتی رہی تھی۔اس میں این ایس اے کے خفیہ رازوں سے پردہ اٹھانے والے ایڈورڈ سنوڈن کی افشاء کردہ دستاویزات کا حوالہ دیا گیا تھا۔
جرمن عہدے داروں نے اس رپورٹ کے بعد امریکا کے خلاف سخت ردعمل کا اظہار کیا تھا اور تب سے متعدد جرمن عہدے داروں کو اس بات کا پتا چلانے کے لیے واشنگٹن بھیجا جاچکا ہے کہ امریکا نے جرمنی میں جاسوسی کی کیا اور کس نوعیت کی سرگرمیاں انجام دی ہیں۔
جرمنی کی داخلی سراغرساں ایجنسی کی ایک خاتون ترجمان نے اپنی شناخت ظاہر نہ کرنے کی شرط پر منگل کو ایک بیان میں کہا ہے کہ اس نے موسم گرما میں این ایس اے کی جاسوسی کی اطلاعات منظرعام پر آنے کے بعد ایک گروپ تشکیل دیا تھا جو امریکا کے علاوہ برطانیہ کی جاسوسی کی سرگرمیوں کی نگرانی کررہا ہے۔ترجمان نے اس گروپ کے سراغرسانی کے نتائج کے حوالے سے کچھ کہنے سے گریز کیا ہے۔ان کو جائزے کے لیے ایک پارلیمانی کمیٹی میں پیش کردیا گیا ہے۔