العربیہ ڈاٹ نیٹ:شامی صدر بشارالاسد نے صدارتی انتخابات میں بھاری اکثریت سے فتح یاب ٹھہرے ہیں اور انھوں نے 88.7 فی صد ووٹ حاصل کیے ہیں جبکہ ملک کی دستوری عدالت عظمیٰ نے کہا ہے کہ ووٹ ڈالنے کی شرح 73.42 فی صد رہی ہے۔
شامی پارلیمان کے اسپیکر نے بدھ کی رات بشارالاسد کی کامیابی کا اعلان کیا ہے۔صدارتی انتخاب کے لیے پولنگ منگل کو ہوئی تھی اور رات تک ووٹ ڈالے جاتے رہے تھے جس کے بعد گنتی کا عمل شروع ہوگیا تھا۔پہلے یہ اطلاع سامنے آئی تھی کہ ابتدائی نتائج کا جمعرات کو اعلان کیا جائے گا لیکن پھر اس سے پہلے ہی بشارالاسد کی ووٹوں کی بھاری اکثریت سے کامیابی کا اعلان کردیا گیا ہے اور ووٹ ڈالنے کی شرح حیرت انگیز طور پر شام سے نسبتاً پُرامن ملک مصر میں منعقدہ حالیہ صدارتی انتخابات سے بھی زیادہ رہی ہے۔
بشارالاسد نے انتخابی نتائج کے اعلان کے بعد شامیوں سے کہا کہ ” وہ ہمارے اخلاقی معیار کے مطابق خوشیاں منائیں لیکن ہوائی فائرنگ سے گریز کریں کیونکہ اس سے شہریوں کی جانوں کو خطرات لاحق ہوسکتے ہیں”۔
ان کے مدمقابل دونوں امیدوار ماہر عبدالحفیظ حجار اور حسان عبداللہ النوری کوئی زیادہ جانے پہچانے چہرے نہیں تھے لیکن شام کے صدارتی انتخابات کا نتیجہ مصر میں منعقدہ حالیہ صدارتی انتخابات کے نتائج سے مختلف نہیں رہا ہے اور یہ دونوں امیدوار دس گیارہ فی صد ووٹ ہی لے سکے ہیں۔
دریں اثناء امریکی وزیرخارجہ جان کیری نے خانہ جنگی کا شکار شام میں صدارتی انتخابات کے انعق
اد پر کڑی تنقید کی ہے اور انھیں ایک بڑا صفر قرار دیا ہے۔انھوں نے کہا کہ ان انتخابات کو شفاف نہیں کہا جاسکتا کیونکہ لاکھوں لوگ تو ووٹ ڈالنے کے موقع سے ہی محروم کردیے گئے تھے۔
انھوں نے لبنان کے ایک روزہ دورے کے موقع پر بیروت میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ”انتخابات سے ایک روز قبل کچھ تبدیل ہوا تھا اور نہ ان کے ایک روز بعد کچھ تبدیل ہوا ہے۔تنازعہ اسی طرح جاری ہے ،دہشت گردی اور ہلاکتوں کا سلسلہ اسی طرح چل رہا ہے”۔
شفاف اور آزادانہ انتخابات
یورپی یونین نے بھی شام میں صدارتی انتخابات کی مذمت کی ہے اور ایک بیان میں کہا ہے کہ انھیں حقیقی طور پر جمہوری ووٹ قرار نہیں دیاجاسکتا ہے لیکن اس تنقید کے باوجود اسد حکومت کے بین الاقوامی حمایتیوں کے وفد نے دمشق میں جاری کردہ ایک بیان میں ان انتخابات کو شفاف اور آزادانہ قرار دیا ہے اور کہا ہے کہ ان سے ملک میں استحکام اور قومی سمجھوتے کے لیے راہ ہموار ہوگی۔
اس وفد میں ایران ،روس اور وینزویلا سمیت تیس ممالک سے تعلق رکھنے والے سرکاری عہدے دار ،اہم شخصیات اور ارکان پارلیمان شامل تھے۔انھوں نے منگل کو مختلف پولنگ مراکز کے دورے کیے تھے۔
ایرانی پارلیمان کی قومی سلامتی سے متعلق کمیٹی کے سربراہ علاء الدین بروجردی نے اپنے بیان میں امریکا اور اس کے اتحادیوں پر شامی عوام کے خلاف جرائم کے ارتکاب کا الزام عاید کیا ہے۔
انھوں نے وفد کی جانب سے عربی اور انگریزی زبان میں جاری کردہ بیان میں کہا کہ ”یہ انتخابات شفاف اور جمہوری انداز میں منعقد ہوئے ہیں اور ان سے غیرملکی فریقوں کی جانب سے مسلط کردہ جنگ کے تین سال کے بعد استحکام اور قومی سمجھوتے کی جانب پیش رفت ہوگی”۔
شامی حکومت کا بھی یہ دعویٰ رہا ہے کہ بشارالاسد کے خلاف مسلح عوامی بغاوت غیرملکی سازش کا حصہ ہے اور اس کا مقصد ملک کو تباہ کرنا ہے۔صدارتی انتخابات کے لیے ووٹنگ صرف اسد حکومت کی عمل داری والے علاقوں میں ہوئی ہے اور ملک کے شمال اور مشرقی علاقوں میں پولنگ نہیں ہوسکی ہے۔اس کے باوجود شامی عہدے داروں کا دعویٰ ہے کہ ووٹ ڈالنے کی شرح ستر فی صد بھی زیادہ رہی ہے۔