تھائی لینڈ میں فوجی بغاوت کے بعد چھ اعلیٰ فوجی حکام کو ملک چلانے کی ذمہ داری دی گئی ہے
تھائی لینڈ میں فوجی بغاوت کے بعد فوج کی جانب سے کریک ڈاؤن جاری ہے اور فوج نے معروف دانشوروں سمیت مزید 35 افراد کو حکم جاری کیا ہے کہ وہ سنیچر کی سہ پہر تک انھیں رپورٹ کریں۔
یہ حکم نامہ معزول وزیر اعظم ینگ لک شناواترا سمیت 100 سیاستدانوں کو بنکاک میں ایک فوجی مرکز میں طلب کیے جانے کے ایک دن بعد سامنے آیا ہے۔
اس کے علاوہ فوج نے ملک کے 155 معروف سیاست دانوں اور کارکنان پر بغیر اجازت ملک سے باہر جانے کی پابندی عائد کر دی ہے۔
معزول وزیر اعظم ینگ لک کو جمعے کو بنکاک میں حراست میں لیا گیا تھا اور انھوں نے حراست میں ہی رات بسر کی۔
دریں اثنا امریکہ نے تھائی لینڈ کو دی جانے والی 35 لاکھ ڈالر کی فوجی امداد روک دی ہے اور فوج سے عوامی حکومت کو بحال کرنے کے لیے کہا ہے۔
واشنگٹن نے سیاحوں سے تھائی لینڈ کے پروگرام منسوخ کرنے کا کہا ہے اور امریکی حکام کے تمام غیر ض
روری دوروں کو روک دیا ہے۔
متعدد ممالک کی مذمت
متعدد ممالک نے تھائی لینڈ میں فوجی بغاوت اور فوج کے حکومت سنبھالنے کی مذمت کی ہے۔ امریکی وزیرِ خارجہ کا کہنا تھا کہ بغاوت کا کوئی جواز نہیں تھا اور امریکہ کی جانب سے دی جانے والی دس ارب ڈالر کی امداد کو روکا جا سکتا ہے۔
فرانس اور جرمنی نے بھی فوجی بغاوت کی مذمت کی ہے اور اقوام متحدہ نے اس اقدام پر سخت تشویش کا اظہار کیا ہے۔
حکام کا کہنا ہے کہ معزول وزیرِاعظم مز ینگ لک کو ایک ہفتے سے زیادہ حراست میں نہیں رکھا جائے گا لیکن اس بات پر زور دیا گیا ہے کہ ان کی حراست ضروری تھی جب تک کہ ملکی مسائل کو ترتیب و تنظیم میں نہیں لایا جاتا۔
ینگ لک کو اسی ماہ عدالت نے وزیر اعظم کے عہدے سے معزول کردیا تھا۔ جن 100 سیاست دانوں کو فوج نے طلب کیا تھا ان میں ینگ لک کے علاوہ کارگزار وزیر اعظم نواتھمرونگ بونگسونگفیسان بھی شامل تھے۔
تھائی لینڈ کے فوجی ترجمان نے کہا ہے کہ سیاست دانوں کو حراست میں اس لیے لیا گيا ہے تاکہ انھیں ’سوچنے کا موقع دیا جا سکے۔
تاہم انھوں نے یہ بتانے سے انکار کیا کہ انھیں کہاں رکھا گیا ہے۔ انھوں نے البتہ یہ ضرور بتایا کہ ان لوگوں سے ان کا موبائل فون لے لیا گيا ہے۔
فوج کا کہنا ہے کہ انتخابات سے قبل ملک میں اصلاحات ضروری ہیں
جمعے کو فوجی سربراہ جنرل پرایوتھ چان اوچا نے اہم حکام سے ملاقات کی اور کہا کہ کسی انتخاب سے قبل اصلاحات ضروری ہیں۔
انھوں نے گورنروں، تجارتی سربراہوں اور سول سروینٹز کو بنکاک آرمی کلب طلب کیا۔
فی الحال فوج کے چھ بڑے حکام کو ملک چلانے کے لیے تعینات کیا گیا ہے اور صوبائی کمانڈروں سے کہا گیا ہے کہ وہ مقامی حکومت کی نگرانی کریں۔
بنکاک میں بی بی سی کے جوناتھن ہیڈ کا کہنا ہے کہ گذشتہ فوجی بغاوت کے برخلاف اس بار جلد عوامی حکومت کی بحالی کی بات نہیں کہی گئی ہے۔
جنرل پرایوتھ نے میٹنگ میں کہا تھا: ’میں تمام سول سرکاری اہلکاروں سے یہ چاہتا ہوں کہ وہ ملک کو منظم کرنے میں مدد کریں۔ ہمارے لیے انتخاب سے قبل، معاشی، سماجی اور سیاسی اصلاحات کرنا ضروری ہیں۔‘
انھوں نے مزید کہا کہ ’اگر حالات پرامن رہتے ہیں تو ہم حکومت عوام کے حوالے کرنے کے لیے تیار ہیں۔‘
معزول وزیر اعظم ینگ لک کو رات حراست میں ہی بسر کرنی پڑی
واضح رہے کہ تھائی لینڈ میں فوج کے سربراہ نے فوجی بغاوت کا اعلان کرتے ہوئے کہا تھا کہ فوج نے حکومت سنبھال لی ہے۔
ٹی وی پر قوم سے خطاب کرتے ہوئے انھوں نے کہا تھا کہ فوج نظم و ضبط بحال کرے گی اور سیاسی اصلاحات متعارف کروائے گی۔
امریکہ سمیت دنیا کے متعدد ممالک نے تھائی لینڈ میں فوجی بغاوت اور فوج کے حکومت سنبھالنے کی مذمت کی ہے۔
امریکی وزیرِ خارجہ کا کہنا تھا کہ بغاوت کا کوئی جواز نہیں تھا اور امریکہ کی جانب سے دی جانے والی دس ارب ڈالر کی امداد کو روکا جا سکتا ہے۔
فرانس اور جرمنی نے بھی فوجی بغاوت کی مذمت کی ہے اور اقوام متحدہ نے اس اقدام پر سخت تشویش کا اظہار کیا ہے۔
یاد رہے کہ منگل کے روز ملک میں فوج نے اہم سرکاری عمارتوں کا کنٹرول سنبھال لیا تھا اور مارشل لا نافذ کر دیا تھا۔ اس موقعے پر فوج کا کہنا تھا کہ ملک کی سکیورٹی کی ذمہ داریاں سنبھالنے کو بغاوت سے تعبیر نہیں کیا جا سکتا۔
ان کا موقف تھا کہ ملک میں حکومت اور حزب اختلاف کے درمیان ایک عرصے سے جاری کشمکش اور سیاسی بحران کے بعد فوج نے مارشل لا نافذ کیا ہے۔
ملک کے عبوری وزیر اعظم کے چیف سکیورٹی ایڈوائزر کا کہنا تھا کہ فوج کے فیصلے کے بارے میں حکومت کو اعتماد میں نہیں لیا گیا تھا۔