بغداد، 30 جنوری (رائٹر) عراقی راجدھانی خصوص اً شیعہ اکثریتی علاقوںمیں کار بم پھٹنے اور فائرنگ کے واقعات میں کم از کم 19 افراد ہلاک ہوگئے۔ اس کے ساتھ ہی اس ماہ اب تک مرنے والوں کی تعداد ایک ہزار کے قریب پہنچ گئی ہے۔کسی بھی گروپ نے اس دھماکوں کی ذمہ داری نہیں لی ہے۔ تاہم ملک کی شیعہ اکثریت کے ممبران کو اکثر سنی باغی نشانہ بناتے رہتے ہیں جن کا تعلق القاعدہ سے ہے۔ پچھلے ایک سال میں انکی طاقت کافی بڑھ گئی ہے۔ راجدھانی کے جنوبی شولا ضلع میں کل دوہرے بم دھماکے میں جس میں سات افراد ہلاک ہوگئے ۔ نیو بغداد میں بھی ایک کاربم پھٹا جس میں پانچ جانیں چلی گئیں۔ طالبیا میں بھی ایک بم دھماکہ ہوا جس میں مزید چار لوگ مارے گئے۔ اس کے علاوہ کیمپ سارہ میں جو عیسائی علاقہ ہے مسلح افراد نے تین لوگوں کو گولی مار کر ہلاک کردیا۔
القاعدہ سے وابستہ “اسلامی ریاست برائے عراق اور شام ” نے اقلیتی سنیوں کے شیعہ حکومت کے خلاف غصے اور ناراضگی کا فائدہ اٹھایا۔ کیونکہ وہ یہ سمجھتے ہیں کہ کبھی غالب رہے ان کے فرقے کے ساتھ ناانصافی کی جارہی ہے اور ان کے خلاف پالیسی اپنائی جارہی ہے۔یکم جنوری کو جنگجووں نے سنی غلبہ والے صوبے عنبر کے دو شہروں پر قبضہ کرلیا تھا۔ٹی وی پر اپنے ہفتہ وار خطاب کے دوران وزیراعظم نوری المالکی نے دوبارہ سے بڑھتی ہوئی جنگجوئیت کے لئے شامی خانہ جنگی کو ذمہ دار ٹھہرایا جس کی وجہ سے پورے مشرق وسطی میں فرقہ وارانہ کشیدگی بھڑکی ہوئی ہے۔مالکی نے کہا جو کچھ شام میں ہورہا ہے اس کی وجہ سے ہمارے یہاں دہشت گردی پنپ رہی ہے انہوں نے نامعلوم ممالک پر الزام لگایا کہ وہ شامی صدر بشارالاسد کو اقتدار سے ہٹانے کے لئے لڑنے والے سنی باغی گروپوں کو اسلحہ دے کر القاعدہ کی مدد کررہے ہیں۔انہوں نے کہا کہ میں یہ بات دوہراتا ہوں کہ شام میں دہشت گرد گروپوں اور انتہاپسندوں کو ہتھیار بھیجنا عراق میں ان کی مدد کرنے کے مترادف ہے۔ اقوام متحدہ کا کہنا ہے کہ 2013 میں عراق میں نو ہزار لوگ مارے گئے یہاں پچھلے پانچ سال کے دوران تشدد انتہا کو پہنچ گیا ۔
بغداد میں بم دھماکے اور فائرنگ ۔ 19 ہلاک
بغداد، 30 جنوری (رائٹر) عراقی راجدھانی خصوصاً شیعہ اکثریتی علاقوںمیں کار بم پھٹنے اور فائرنگ کے واقعات میں کم از کم 19 افراد ہلاک ہوگئے۔ اس کے ساتھ ہی اس ماہ اب تک مرنے والوں کی تعداد ایک ہزار کے قریب پہنچ گئی ہے۔کسی بھی گروپ نے اس دھماکوں کی ذمہ داری نہیں لی ہے۔ تاہم ملک کی شیعہ اکثریت کے ممبران کو اکثر سنی باغی نشانہ بناتے رہتے ہیں جن کا تعلق القاعدہ سے ہے۔ پچھلے ایک سال میں انکی طاقت کافی بڑھ گئی ہے۔ راجدھانی کے جنوبی شولا ضلع میں کل دوہرے بم دھماکے میں جس میں سات افراد ہلاک ہوگئے ۔ نیو بغداد میں بھی ایک کاربم پھٹا جس میں پانچ جانیں چلی گئیں۔ طالبیا میں بھی ایک بم دھماکہ ہوا جس میں مزید چار لوگ مارے گئے۔ اس کے علاوہ کیمپ سارہ میں جو عیسائی علاقہ ہے مسلح افراد نے تین لوگوں کو گولی مار کر ہلاک کردیا۔
القاعدہ سے وابستہ “اسلامی ریاست برائے عراق اور شام ” نے اقلیتی سنیوں کے شیعہ حکومت کے خلاف غصے اور ناراضگی کا فائدہ اٹھایا۔ کیونکہ وہ یہ سمجھتے ہیں کہ کبھی غالب رہے ان کے فرقے کے ساتھ ناانصافی کی جارہی ہے اور ان کے خلاف پالیسی اپنائی جارہی ہے۔یکم جنوری کو جنگجووں نے سنی غلبہ والے صوبے عنبر کے دو شہروں پر قبضہ کرلیا تھا۔ٹی وی پر اپنے ہفتہ وار خطاب کے دوران وزیراعظم نوری المالکی نے دوبارہ سے بڑھتی ہوئی جنگجوئیت کے لئے شامی خانہ جنگی کو ذمہ دار ٹھہرایا جس کی وجہ سے پورے مشرق وسطی میں فرقہ وارانہ کشیدگی بھڑکی ہوئی ہے۔مالکی نے کہا جو کچھ شام میں ہورہا ہے اس کی وجہ سے ہمارے یہاں دہشت گردی پنپ رہی ہے انہوں نے نامعلوم ممالک پر الزام لگایا کہ وہ شامی صدر بشارالاسد کو اقتدار سے ہٹانے کے لئے لڑنے والے سنی باغی گروپوں کو اسلحہ دے کر القاعدہ کی مدد کررہے ہیں۔انہوں نے کہا کہ میں یہ بات دوہراتا ہوں کہ شام میں دہشت گرد گروپوں اور انتہاپسندوں کو ہتھیار بھیجنا عراق میں ان کی مدد کرنے کے مترادف ہے۔ اقوام متحدہ کا کہنا ہے کہ 2013 میں عراق میں نو ہزار لوگ مارے گئے یہاں پچھلے پانچ سال کے دوران تشدد انتہا کو پہنچ گیا ۔