یہ انٹرپرینیورشپ کی اہمیت کے بارے میں تین مضامین کی سیریز میں دوسرا مضمون ہے۔ پہلا حصہ یہاں ملاحظہ کریں۔
اس مضمون کے پہلے حصے کی اشاعت کے بعد بہت سے قارئین کا سوال یہ تھا کہ ہم بھی انٹرپرینیورشپ کرنا چاہتے ہیں، لیکن اس کے لیے درکار سرمایہ کہاں سے آئے گا، ہم کون سا کاروبار کریں اور کیسے کریں؟ اس طرح کے سوالات کا کوئی قطعی جواب نہیں ہوتا کیونکہ اس کا تعلق ہر شخص کی انفرادی زندگی سے ہوتا ہے، اور چونکہ ہر شخص کے وسائل اور مسائل مختلف ہوتے ہیں، اس لیے ایک شخص کا حل دوسرے کے کسی کام نہیں آسکتا۔
انٹرپرینیورشپ میں کسی شخص کی کامیابی کے لیے صرف ’’جذبے‘‘ کا ہونا لازمی ہے۔ اگر کسی شخص میں جذبہ موجود ہے تو وہ خود ہی ترقی کے لیے درکار تمام وسائل پیدا کر لے گا۔
انٹرپرینیورشپ کے بارے میں روایتی سوچ:
انٹرپرینیورشپ کے بارے میں ہمارے معاشرے میں عام خیال، اور روایتی سوچ یہ ہے کہ انٹرپرینیورشپ میں کامیاب صرف خاص خاندانی پس منظر کے لوگ ہوتے ہیں، بغیر سرمائے یا اتنہائی کم فنانس سے کامیاب انٹرپرینیورشپ ممکن نہیں، خوشحالی کا ذریعہ صرف اور صرف اچھی سرکاری نوکری، یا بیرون ملک جا کر نوکری ہے، انٹرپرینیورشپ نہیں، یہاں تک کہ اعلیٰ تعلیم یافتہ والدین سے میں نے خود سنا ہے کہ ’’نہ ہمارے خاندان میں سے کسی نے کاروبار کیا نہ ہم کاروبار کرسکتے ہیں‘‘۔
پہلی بات تو یہ کہ ہمیں ایک روایتی کاروبار اور انٹرپرینیورشپ میں فرق کرنا ہوگا۔ کاروبار یعنی بزنس، اور انٹرپرینیورشپ میں فرق یہ ہے کہ کاروبار اپنا کام ہوتا ہے، مگر ایسا جو پہلے بھی بہت لوگ کر چکے ہیں اور جو مارکیٹ میں عام طور پر رائج ہوتا ہے، جیسے کپڑوں کی دکان کھول لینا۔ ہم یہاں پر اس کاروبار کی بات نہیں کریں گے۔ اگر آپ اسی کپڑوں کی دکان کو انٹرنیٹ پر لے جائیں، لوگوں کو گھر بیٹھے کپڑے پسند کرنے اور سلائی کا آرڈر دینے کی سہولت دے دیں، تو یہ انٹرپرینیورشپ کہلائے گی، یعنی ایک ایسا کام، جس کا مارکیٹ میں پہلے تصور موجود نہیں تھا اور آپ نے اسے شروع کر کے ایک جوکھم اٹھایا کیونکہ پہلے سے مثال نہ ہونے کی وجہ سے آپ کو معلوم نہیں ہوتا کہ آیا یہ آئیڈیا پسند کیا جائے گا یا نہیں۔
دنیا کے چند کامیاب انٹرپرینیورز:
اب بات کرتے ہیں سرمائے کی۔ آج کی دنیا میں ایسی بہت سے مثالیں موجود ہیں جو ’’انتہائی کم سرمائے‘‘ کے باوجود انٹرپرینیور بننے میں کامیاب ہوئے۔ بل گیٹس کی مثال تمام دنیا کے سامنے ہے۔ ایک شخص لوگوں کے لیے کمپیوٹر کا استعمال آسان بنانے کے لیے ایک سوفٹ ویئر (ونڈوز آپریٹنگ سسٹم) تیار کرتا ہے اور چند سالوں میں ہی دنیا کا امیر ترین شخص بن جاتا ہے۔ دنیا میں کبھی نہیں ہوا کہ ایک شخص مسلسل گیارہ سال تک دنیا کا امیر شخص رہا ہو۔
ذرا غور کریں۔ کیا عقل اس بات کو تسلیم کرتی ہے کہ چند سو مربع فٹ جگہ پر تیار شدہ چیزوں کا منافع ہزاروں ایکڑ پر تعمیر شدہ صنعتوں سے زیادہ ہو، یا چند افراد کی مدد سے تیار شدہ ایک چیز کی کامیابی کا مقابلہ لاکھوں کی تعداد میں افرادی قوت والی فیکٹریاں نہیں کرسکتی ہوں۔
وجہ صاف ظاہر ہے۔ ہزاروں ایکڑ کی فیکٹری میں جو چیز تیار ہوتی ہے، وہ وہی چیزیں ہیں جن کی مارکیٹ میں پہلے سے مثالیں موجود ہیں، کوئی جدت نہیں، اور اگر ہے بھی تو کوئی ایسی نہیں کہ دنیا بدل دے۔ یہ کاروبار ہے۔ اس کے مقابل ونڈوز انٹرپرینیورشپ کی ایک عمدہ مثال ہے۔
اسی طرح سے اور کئی مثالیں موجود ہیں: فیس بک کے بانی اور چیف ایگزیکٹو آفیسر مارک زکربرگ جنہوں نے اپنا کام شروع کیا اور کمال ترقی کی۔ انسٹا گرام، واٹس ایپ، اسنیپ چیٹ وہ اسمارٹ فون ایپلیکیشنز ہیں جو دنیا میں تہلکہ مچائے ہوئے ہیں۔ کیا آپ کو معلوم ہے کہ یہ سب دو دو چار چار لوگوں کے گروپس نے صرف آئیڈیا کی بنیاد پر تیار کی تھیں اور چند گھنٹوں میں ہی اینڈرائیڈ کی سب سے زیادہ ڈاؤن لوڈ کی جانے والی ایپس میں شمار ہوگئی تھیں؟
مشہور ریسٹورنٹ کے ایف سی کے مالک کرنل سینڈرز نے ریٹائرمنٹ کے بعد اپنی چکن پکانے کی ترکیب فروخت کرنے کی کوشش کی، جس کے لیے انہوں نے اپنی پرانی سی کار میں امریکا کی کئی ریاستوں کا سفر کیا۔ کئی دفعہ وہ رات اپنی کار میں گزارتے تھے۔ مگر جب ان کو شراکت دار سے کامیابی ملی تو ملتی چلی گئی۔ آج دنیاکے اکثر ممالک میں کے ایف سی کے ریسٹورنٹ قائم ہیں۔
ذرا غور کریں، بوڑھا آدمی، سرمایہ صفر۔ پاس کیا ہے؟ صرف کھانے پکانے کی ایک ترکیب۔ اگر کرنل سینڈرز ریٹائرمنٹ کے بعد دوبارہ کسی اور جگہ جاب کر لیتے تو کیا آپ ان کی شکل سے واقف ہوتے؟
ان تمام مثالوں سے یہ بات یقینی طور پر کہی جا سکتی ہے کہ دنیا کے امیر ترین اور نامور ترین افراد میں شامل ہونے کے لیے آپ کے کام کو بہت زیادہ ابتدائی سرمائے کی ضرورت نہیں۔ اگر ضرورت ہے تو صرف تخلیقی سوچ کی، جو ایسی چیز مارکیٹ میں لائے جو اس سے پہلے کوئی نہ لایا ہو۔ صرف تب ہی آپ کی چیز ہاتھوں ہاتھ لی جائے گی اور دنیا بدل دینے والی چیزوں میں شامل ہوگی۔
پاکستان میں بہت سے نوجوان انٹرپرینیورز نے بہت زبردست کام کیا اور سالوں کا سفر ہفتوں میں طے کیا ہے۔ پاکستان میں ایسی بے شمار مثالیں موجود ہیں۔
حکیم سعید صاحب مرحوم نے اسکول کی نوکری چھوڑی اور اپنا خود کا چھوٹا سا بزنس شروع کیا۔ شروع میں حکیم سعید کا بزنس دکان سے دکان تک نونہال گرائپ واٹر کی فروخت تھی۔ پھر آہستہ آہستہ یہ کاروبار ترقی کرتے ہوا ایک دن ہمدرد لیبارٹری بن جاتا ہے۔ غور کریں۔ اگر حکیم سعید صاحب اپنا بزنس شروع نہ کرتے تو کیا ہمدرد لیبارٹری قائم ہوتی؟ ہمدرد یونیورسٹی/اسکول کا منصوبہ بن سکتا تھا؟ کیا 132 ایکڑ پر پھیلا ہوا حکمت کا شہر نوکری سے حاصل ہو سکتا تھا؟
تعلیمی ویب سائٹ ’’علم کی دنیا‘‘ ایک نوجوان غلام علی نے اپنے ذاتی کمپیوٹر سے شروع کی اور آج پاکستان کے بڑی تعلیمی ویب سائٹ ہے۔ اب غلام علی صاحب کی ٹیم میں کئی افراد جاب کرتے ہیں۔ آج غلام علی کا شمار پاکستان کے بڑے ویب انٹرپرینیورز میں ہوتا ہے۔ بڑی اور اہم ویب سائٹ ہونے کی وجہ سے وہ فیس بک کی جانب سے شروع کیے گئے مفت انٹرنیٹ کے منصوبے Internet.org میں بھی شامل ہے۔
انٹرپرینیورشپ کے لیے جذبے کی اہمیت:
میرے خیال میں انٹرپرینیورشپ کی کامیابی کے لیے پیسے کی حیثیت ثانوی ہے۔ پیسے، افرادی قوت، مہارت، تعلیم، وغیرہ بطور اوزار استعمال ہوتے ہیں۔ ان کی بنیادی اہمیت نہیں۔ لیکن اگر آپ کے اندر کامیابی کے لیے درکار جذبہ موجود نہیں تو سرمایہ، تعلیم، مہارت، افرادی قوت کے باوجود آپ کامیاب نہیں ہوسکتے۔
کیا وجہ ہے کہ ایک بینک/فنانس کمپنی کسی انٹرپرینیور کو اس کے منصوبے کے لیے قرضہ دیتا ہے یا اس کے ساتھ شراکت داری کرتے ہیں۔ تو ان کے پاس اس تیار منصوبے کی تمام جزویات موجود ہوتی ہیں۔ ان کو نہ صرف یہ معلوم نہیں ہوتا ہے بلکہ یقین ہوجاتا ہے کہ یہ منصوبہ قابل عمل ہے اور کچھ سالوں میں ان کا سرمایہ اصل زر+منافع واپس مل جائے گا۔ اور یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ اس منصوبے سے سب سے زیادہ فائدہ انٹرپرینیور کو ہوگا۔ تو وہ کیوں خود اس منصوبے پر عمل نہیں کرتے؟
اس کی وجہ یہ ہے کہ بینک/فنانس کمپنی اس سے بہتر منصوبہ سازی کرسکتی ہیں، سرمایہ ان کے پاس پہلے سے موجود ہے، افرادی قوت یا خام مال مارکیٹ میں موجود ہے، لیکن ان کے پاس جس چیزیں کی کمی ہے وہ ہے کامیابی کا جذبہ۔ چونکہ ان کے پاس جذبہ رکھنے والے لوگ موجود نہیں ہوتے، اس لیے ان کو ناکامی کا اندیشہ ہوتا ہے اور سرمایہ کار عموماً خطرہ مول نہیں لیتے۔
جذبہ کیسے حاصل کیا جائے:
جذبہ، خواہش، آرزو، تمنا، طلب، انسان کے اندر خود بخود پیدا ہوتی ہے۔ یہ ہی وہ آگ ہے جو کسی انسان کی کامیابی کے لیے لازمی ہے۔ میرے خیال میں اس کو کسی دوسرے کے اندر پیدا کرنا نہایت ہی مشکل اور تقریباً نامکمل کام ہے۔ یہ مارکیٹ میں دستیاب نہیں کہ کسی میڈیکل اسٹور سے خرید کر استعمال کر لی جائے۔ ہاں اگر کسی شخص کے اندر جذبہ کی آگ دھیمی ہے تو اس کی مقدار کو زیادہ کیا جاسکتا ہے۔
اس کا ایک طریقہ یہ ہے کہ کامیاب افراد کی کامیابیوں کی داستانوں کا مطالعہ کیا جائے۔ سوشل میڈیا پر اس موضوع پر کافی سارے آڈیو/ویڈیو لیکچر بھی دستیاب ہیں جس میں ماہرِ نفسیات ڈاکٹر صداقت علی اور قاسم علی شاہ کے لیکچرز شامل ہیں۔ اس کے علاوہ مارکیٹ میں انگریزی زبان میں اس موضوع پر بہت سی کتب موجود ہیں، جبکہ اردو زبان میں بھی مشہور انگریزی کتب کے ترجمے اور خود لکھی ہوئی کتب بھی عام دستیاب ہیں۔ ڈیل کارنیگی، اسٹیفن آر کووے، ڈاکٹر رابرٹ ایچ شلر کی انگریزی زبان یا اردو ترجمہ میں، اور اردو زبان میں ڈاکٹر ارشد جاوید کی کتب کو میں نے بہت مفید پایا ہے۔