ملبورن۔بغیر کسی معالج ، کلینک یا دوا کے آسٹریلیا کے لوگوں کی صحت میں کیسے بہتری لائی جا سکتی ہے اور اس کا ان کی زندگی پر بھی بہت مثبت اثر ہوگا۔جواب ہے کہ محض ایک ڈرائیونگ لائسنس کا حصول ان مقامی نوجوانوں کو بہت زیادہ فائدہ پہنچا سکتا ہے۔آسٹریلیا کے چھوٹے قصبوں میں محدود پبلک ٹرانسپورٹ کی وجہ سے یہ افراد بغیر لائسنس گاڑی چلانے پر مجبور ہیں او
ر ناتجربہ کار افراد کے لیے یہ عمل خطرناک بھی ہو سکتا ہے۔آسٹریلیا کے قدیم آباد کاروں کے پاس دوسرے آسٹریلوی باشندوں کی نسبت کم ڈرائیونگ لائسنس ہیں اور ان کے سڑک حادثات میں ہلاک ہونے کے امکانات تین گنا زیادہ ہیں۔بغیر لائسنس گاڑی چلانے والوں کے لیے سخت سزائیں بھی ہیں۔نیو ساؤتھ ویلز کے مضافاتی علاقے سے تعلق رکھنے والے 21 سالہ ایڈن برنز کا کہنا ہے کہ ڈرائیونگ سیٹ پر آنے سے وہ اپنی بیروزگار اور تنہائی کی زندگی کا تسلسل توڑنے میں کامیاب ہوئے ہیں۔وہ کہتے ہیں ’کوئی نہیں تھا جو میرے لیے گاڑی چلاتا، عموماً میں تمام دن گھر پر تنہا ہوتا ہوں۔‘’ اگر آپ کے پاس لائسنس نہیں ہے تو آپ تمام دن گھر میں بیٹھے رہیں اور بور ہوتے رہیں۔
آپ سیر کے لیے نہیں جا سکتے، کسی دوست یا خاندان کے کسی فرد سے ملنے نہیں جا سکتے۔‘وہ اب اس منصوبے کا حصہ بن کر خوش ہیں جس کے تحت مقامی لوگوں کو ڈرائیونگ لائسنس کے حصول کے پیچیدہ دستاویزی طریقہ کار میں مدد دینے کے ساتھ ساتھ انھیں تربیت بھی دی جا رہی ہے۔ان کا کہنا ہے کہ ’اس سے واقعی بہت بہتر محسوس ہوتا ہے۔ یہ آپ کو ڈپریشن سے نکالتا ہے۔‘ڈرائیونگ چینج نامی یہ منصوبہ آسٹریلیا کے مختلف علاقوں میں جاری ہے اور اسے جارج انسٹیٹیوٹ آف گلوبل ہیلتھ نے شروع کیا ہے۔ یہ ادارہ پچاس ممالک میں کئی منصوبے چلا چکا ہے۔صحت کی تعریف لوگوں کی سماجی اور جذباتی صحت اور فلاح ہے۔ یہ صرف کسی ایک شخص کی جسمانی صحت کا معاملہ نہیں بلکہ تمام برادری کی صحت کے بارے میں ہے۔ اس منصبوے سے پوری برادری کی صحت پر اثر پڑے گا۔ادارے سے منسلک پروفیسر روبیکا آئویرز کا کہنا ہے کہ آسٹریلوی باشندوں کے لیے شروع کیے گئے اس منصوبے میں گاڑی چلانے کے لیے تربیت کو بھی شامل کیا گیا ہے۔ان کا کہنا تھا کہ ’صحت کی تعریف لوگوں کی سماجی اور جذباتی صحت اور فلاح ہے۔ یہ صرف کسی ایک شخص کی جسمانی صحت کا معاملہ نہیں بلکہ تمام برادری کی صحت کے بارے میں ہے۔ اس منصوبے سے پوری برادری کی صحت پر اثر پڑے گا۔‘شمالی ریاست میں بھی 20 کے قریب آبادیوں میں مقامی افراد کو گاڑی چلانے میں مدد دینے کا منصوبہ کافی مقبول ہے۔ محفوظ طریقے سے گاڑی چلانے کے عنوان سے اس منصوبے میں لوگوں کی لوگوں کو ڈرائیونگ لائسنس کے حصول میں مدد دی جاتی ہے۔ریاست کے ٹرانسپورٹ کے محکمے کی سربراہ کلیئر گارڈینر برینز کا کہنا ہے کہ ’ان افراد نے باقاعدہ گاڑی چلانے کی تربیت حاصل نہیں کی تھی۔ اور اب یہ خوشخبری جنگل کی آگ کی طرح پھیلی ہے۔ یہ اس برادری کے لیے کافی پر جوش کر دینے والے چیز ہے۔‘ان کا مزید کہنا تھا کہ ’یہ ایک علمی منصوبے ہے کو کبھی اس طری سماجی سطح پر شروع نہیں کیا گیا۔‘’ڈرائیونگ چینج‘ نامی منصوبے کا مقصد اعتماد میں اضافہ اور محفوظ ڈرائیونگ ہے۔ادارے کی اہلکار روز مک برائڈ کا کہنا ہے کہ اس منصوبے نے کئی طلبا کا بوجھ ہلکا کر دیا ہے۔’لائسنس ہونے سے ان کی ذہنی صحت بہتر ہوئی اس کے نہ ہونے سے وہ پریشان رہتے تھے اور خود کو بیکار تصور کرتے تھے۔‘اب تک یہ ادارہ درجنوں افراد کو گاڑی چلانے اور خوش رہنے کی آزادی دلا چکا ہے۔ایک اور تربیتی سبق کے بعد ایڈن برنز کا چہرہ دمک رہا تھا اور ان کا کہنا تھا ’لفظوں میں بیان کرنا مشکل ہے کہ گاڑی چلا کر کیسا محسوس ہوتا ہے۔ میں پر جوش ہوں۔ میں جانتا ہوں یہ زندگی بدل دینے والی چیز ہے۔‘’میں ایک شیف بننا چاہتا ہوں اور اب میں اپنے مقصد کی جانب زیادہ بہتر طور پر بڑھ سکوں گا۔‘